وفاقی حکومت نے ڈپٹی رجسٹرار توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کرتے ہوئے 27 جنوری کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ دو رکنی بینچ نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا اور ججز کی آئینی کمیٹی کے دائرہ کار میں مداخلت کی۔
احکومت کے مطابق، دو رکنی بینچ کے پاس اس مقدمے کی سماعت کا اختیار نہیں تھا، کیونکہ یہ معاملہ ججز آئینی کمیٹی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد ریگولر بینچ آئینی و قانونی تشریح سے متعلق کیسز نہیں سن سکتا، اس لیے فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔ اپیل میں مؤقف اپنایا گیا کہ ڈپٹی رجسٹرار کو شوکاز نوٹس جاری ہونے کے بعد عدالت برخاست ہو چکی تھی، اس کے بعد کوئی حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ پہلے کے عدالتی احکامات پہلے ہی کالعدم ہو چکے ہیں – حکومت نے نشاندہی کی کہ آئینی بینچ پہلے ہی 13 اور 16 جنوری کے احکامات واپس لے کر کالعدم قرار دے چکا ہے، اس لیے 27 جنوری کا فیصلہ بھی برقرار نہیں رہ سکتا۔
اگر سپریم کورٹ حکومت کی اپیل کو منظور کر لیتی ہے، تو اس سے ڈپٹی رجسٹرار توہین عدالت کیس میں دو رکنی بینچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ فیصلہ مستقبل میں ایسے کیسز کے دائرہ اختیار سے متعلق بھی اہم نظیر قائم کرے گا۔