اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا۔ سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ ملٹری کورٹ سے سزا یافتہ ارزم جنید کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو سویلینز کے بنیادی حقوق ختم کرکے کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بین الاقوامی معیار کے بھی خلاف ہے، جو کہتا ہے کہ ٹرائل آزاد، شفاف اور کھلی عدالت میں ہونا چاہیے۔بین الاقوامی قوانین کے مطابق ٹرائل کے فیصلے عوامی سطح پر ہونے چاہئیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر بین الاقوامی اصولوں پر عمل نہ کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ اس کا مطلب ہوگا کہ ٹرائل شفاف نہیں تھا۔ جسٹس مندوخیل نے مزید سوال کیا کہ اگر کوئی ملک بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو کیا ہوگا؟ اس پرسلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ کچھ بین الاقوامی اصولوں کو ماننے کی پابندی ہوتی ہے اور کچھ کی نہیں۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ بین الاقوامی اصولوں میں کہیں نہیں لکھا کہ سویلینز کا کورٹ مارشل نہیں ہوسکتا۔ سلمان اکرم راجہ نے نشاندہی کی کہ برطانیہ میں کورٹ مارشل آزاد ججز کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں۔ انہوں نے ایف بی علی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت آئین میں اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔ پہلے ڈپٹی کمشنر اور تحصیلدار بھی فوجداری مقدمات سنتے تھے۔ اس بنیاد پر کہا گیا کہ اگر ڈی سی کر سکتا ہے تو کرنل صاحب بھی کر سکتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے مطابق پاکستان میں فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔رپورٹ میں حکومت کو ہدایت دی گئی تھی کہ فوجی تحویل میں موجود افراد کو ضمانت دی جائے۔