اسلام آباد: بنچز اختیارات کیس کو ڈی لسٹ کرنے کے معاملے پر توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے اپنا جواب جمع کرا دیا۔
ایڈیشنل رجسٹرار نے شوکاز نوٹس واپس لینے کی درخواست کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ انہوں نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بنچ بنانے کے معاملے پر نوٹ تیار کرکے پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھیجا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے اس کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالتی معاون حامد خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مکالمے میں سوال اٹھایا کہ کیا انتظامی فیصلے کے ذریعے عدالتی حکم نامہ تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ اس پر حامد خان نے جواب دیا کہ ایسا ممکن نہیں، کیونکہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کو آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت عدالتی اختیارات دیئے گئے ہیں، اور سپریم کورٹ کی تعریف تمام ججز پر مشتمل ہے، کسی مخصوص جج کو یہ اختیارات تفویض نہیں کیے جا سکتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ ایک الگ بحث ہے، اگر آرٹیکل 191 اے کی تشریح پر بات کی جاتی تو یہ سوال سامنے آ سکتا تھا۔ موجودہ کیس ججز کمیٹی کے عدالتی احکامات سے ہٹنے سے متعلق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ججز کمیٹی عدالتی حکم کو نظرانداز کرے تو یہ معاملہ فل کورٹ کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے پر کچھ ابہام موجود ہے اور حامد خان سے دریافت کیا کہ آرٹیکل 191 اے کو وہ کیسے دیکھتے ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بنچ تشکیل جیسے معاملات پر سپریم کورٹ کو قواعد بنانے کا اختیار حاصل تھا، لیکن اب سپریم کورٹ کے بعض اختیارات محدود کر دیئے گئے ہیں، جو کہ آئندہ بحث میں زیر غور آئیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ دنیا میں کیا کوئی ایسا ملک ہے جہاں عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بنچ تشکیل دے؟ حامد خان نے جواب میں کہا کہ ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوتا۔
عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ آیا 1980 کے قواعد کے تحت فل کورٹ کی تشکیل چیف جسٹس پاکستان کریں گے یا ججز کمیٹی؟ اور کیا عدالتی حکم کے ذریعے فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ ججز کمیٹی کے پاس بھیجا جا سکتا ہے؟
حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے قواعد کا سیکشن 2 اے آرٹیکل 191 اے کے مطابق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے لیکن کم نہیں کر سکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ سوال موجودہ کیس سے الگ ہے اور یہ 26 ویں آئینی ترمیم کا حصہ ہے۔
حامد خان نے وضاحت کی کہ آرٹیکل 191 اے آئینی بنچز کا ذکر کرتا ہے اور اس کے تحت سپریم کورٹ میں کم از کم پانچ ججز پر مشتمل آئینی بنچ ہونا ضروری ہے، اور سینئر ترین جج کو اس بنچ کی سربراہی دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کمیٹی کے قواعد آرٹیکل 191 اے سے مطابقت نہیں رکھتے اور آئین سے متصادم ہیں۔
عدالتی معاون کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت مختصر وقفے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔