مولانا فضل الرحمٰن کی پی ٹی آئی کی حکومت سے بات چیت کی پالیسی پر تنقید
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جماعت پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے مذاکرات کے خلاف تھی، لیکن اب خود اسی حکومت سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مولانا مردان میں جامعہ الاسلامیہ بابوزئی کی تقریب میں شریک ہوئے، جہاں درسِ نظامی مکمل کرنے والے طلبہ کے اعزاز میں پروگرام ہوا۔ اس تقریب میں بڑی تعداد میں طلبہ اور ان کے والدین شریک تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کے مخالف نہیں، لیکن ہر چیز کو انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مغربی کلچر مذہبی جماعتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور قیامِ پاکستان سے اب تک اسٹیبلشمنٹ اور مغربی قوتیں دینی مدارس کے خلاف سرگرم ہیں۔
انہوں نے جنرل مشرف کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم امریکا کے غلام بن چکے ہیں۔ مولانا نے واضح کیا کہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ آزادی کے لیے جدوجہد کی، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے بیرونی دباؤ کو قبول کیا۔
مدارس کی رجسٹریشن کے مسئلے پر مولانا کا کہنا تھا کہ وہ جدید تعلیم کے خلاف نہیں ہیں، لیکن مدارس کو نشانہ بنانا غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام مدارس کے حقوق کا بھرپور دفاع کرے گی۔
ضلع کرم کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ وہاں فوجی آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور جے یو آئی ہمیشہ سیاسی مذاکرات پر یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو مدد کی ضرورت ہو تو وہ تعاون کے لیے تیار ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کی پالیسی میں تضاد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت پہلے کہتی تھی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست بات کرے گی، لیکن اب وہ حکومت سے بات کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت پر بھی تنقید کی اور کہا کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ہر طرف کرپشن عام ہے، اور امن و امان کی صورتحال خراب ہو چکی ہے۔
مولانا نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ غیر ذمہ دارانہ باتیں کر رہے ہیں، لیکن وہ ان بیانات کو اہمیت نہیں دیتے۔
انہوں نے زور دیا کہ سیاسی قیادت کو اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے اور مخالفت کے باوجود عقل مندی سے کام لینا چاہیے تاکہ ملک کے مسائل حل ہو سکیں۔
اختتام پر مولانا نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی حامی رہی ہے۔