اسلام آباد:سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت جاری ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ 9 مئی 2023 کے پرتشدد احتجاج کے ملزمان کو فوجی تحویل میں لیتے وقت بنیادی حقوق معطل نہیں تھے اور نہ ہی اس دوران ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔
یہ سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کر رہا ہے۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے آرٹیکل 233 کو غیر مؤثر قرار دیا تھا، حالانکہ آرٹیکل 233 کا فوجی عدالتوں کے مقدمے سے براہ راست تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 233 کو آرٹیکل 8(5) کی تشریح میں مداخلت کے لیے چھیڑا گیا، جبکہ آئین کے تحت صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کرکے بنیادی حقوق معطل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بھی ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی، جس دوران بنیادی حقوق کی عملداری ممکن نہیں تھی۔ تاہم سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی کے باوجود عدالتیں اپنے اختیارات کا استعمال کر سکتی ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالتوں میں بنیادی حقوق کا دفاع کیا جا سکتا ہے اور صرف عملداری معطل ہوتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے دوبارہ کہا کہ 9 مئی کے مقدمات میں ملزمان کی فوجی تحویل کے وقت نہ تو بنیادی حقوق معطل تھے اور نہ ایمرجنسی نافذ تھی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ذکر کیا گیا کہ عملدرآمد کی معطلی بنیادی حقوق کو معطل کرنے کے برابر ہے۔
دوران سماعت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ اگر سپریم کورٹ آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی کو کالعدم قرار دیتی ہے تو اس کا مجموعی اثر کیا ہوگا؟ انہوں نے پوچھا کہ کیا کلبھوشن یادیو جیسے دشمن جاسوس کا ٹرائل اب فوجی عدالتوں میں ممکن ہوگا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ کی مذکورہ شق کالعدم رہی تو دشمن جاسوس کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں کیا جا سکے گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمیں اپنے پراسیکیوشن نظام کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جی ایچ کیو پر حملے اور دیگر دہشتگردی کے واقعات میں کئی شہادتیں ہوئیں۔ کورین طیارے کی تباہی اور آرمی چیف کے جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش بھی ایسے مقدمات ہیں جو خاص عدالتی توجہ کے مستحق تھے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اس کیس میں بحث ملٹری کورٹس کے وجود پر نہیں بلکہ ان کے اختیار سماعت پر ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ 9 مئی کے 103 ملزمان فوجی عدالتوں میں پیش کیے گئے، باقی انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں۔ یہ تفریق کیسے اور کس اصول کے تحت کی گئی؟