افغانستان میں پولیو کی صورتحال پاکستان سے بہتر
دنیا کی نظریں پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان پر مرکوز ہیں، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں پولیو کی صورتحال پاکستان کے مقابلے میں بہتر ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، سال 2024 میں افغانستان میں پولیو کے 25 کیسز سامنے آئے، جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 68 رہی۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں پچھلے سال جمع کیے گئے کئی نمونوں کی رپورٹس ابھی باقی ہیں، جن سے یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔
پاکستان کے پولیو پروگرام کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ پاکستان حقائق شیئر کرنے کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے اور اس کا رپورٹنگ نظام افغانستان کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہے۔ ان کے مطابق، افغانستان میں پولیو کے کئی کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پولیو کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرتے ہوئے ایک نئی ٹیم تشکیل دی ہے، جس میں عائشہ رضا فاروق اور انوار الحق شامل ہیں۔
گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 26 دسمبر تک 67 سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ افغانستان میں یہ تعداد 25 رہی۔ دونوں ممالک میں 60 فیصد لڑکے اور 40 فیصد لڑکیاں پولیو سے متاثر ہیں۔ افغانستان میں 16 فیصد اور پاکستان میں 12 فیصد متاثرہ بچوں کو پولیو ویکسین کی ایک بھی خوراک نہیں دی گئی۔
ماحولیاتی نمونوں کے حوالے سے، پاکستان میں 106 مقامات سے 591 نمونے مثبت آئے، جبکہ افغانستان میں 24 مقامات سے 100 نمونے مثبت پائے گئے۔ پاکستان میں پولیو 83 اضلاع تک پھیل چکا ہے، جبکہ افغانستان میں یہ وائرس صرف 11 صوبوں تک محدود ہے۔
پاکستان میں پولیو پروگرام 1994 سے کام کر رہا ہے، لیکن ابھی تک ملک پولیو فری نہیں بن سکا۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر یونین کونسل مفلوج بچوں کے نمونے جمع کرتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں زیادہ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جبکہ افغانستان میں ایسا نظام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انکار کرنے والے والدین اور علاقوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے، اور امید ہے کہ اس سال صورتحال میں بہتری آئے گی۔
پاکستان کے پولیو فری ہونے کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران بچوں تک رسائی میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ فاٹا، کراچی اور پشاور جیسے علاقوں میں حفاظتی خلا پیدا ہونے سے وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا اور سیکڑوں بچوں کو مفلوج کر دیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پولیو کے خاتمے کے لیے مزید سخت اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ جلد ہی اس بیماری سے مکمل چھٹکارا حاصل کیا جا سکے