سپریم کورٹ آف پاکستان کے 6 رکنی آئینی بینچ کی 14 اور 15 نومبر کو ہونے والی اہم سماعتوں کے لیے کاز لسٹ جاری

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 6 رکنی آئینی بینچ کی 14 اور 15 نومبر کو ہونے والی اہم سماعتوں کے لیے کاز لسٹ جاری کی گئی ہے، جس میں 34 مقدمات کی سماعت کی جائے گی۔ بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں،

بینچ کے سامنے پہلا مقدمہ ماحولیاتی آلودگی سے متعلق ہے، جو 1993 سے زیر التوا ہے۔ یہ کیس ماحول کی حفاظت اور آلودگی کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں پاکستانی قانون اور آئین میں اہمیت رکھتا ہے۔ اس مقدمے کی سماعت میں عدالت کو ماحولیاتی آلودگی کے اثرات پر غور کرتے ہوئے حکومتی اقدامات اور قانونی ہدایات پر فیصلہ دینا ہے۔ ماضی میں بھی عدالت نے مختلف ماحولیاتی مقدمات میں سخت فیصلے سنائے، جن کا مقصد عوامی مفاد کا تحفظ تھا۔

اس مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا، جسے عدالت نے پہلے ہی خارج کردیا تھا۔ تاہم، اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ یہ مقدمہ عدالت کی تعیناتیوں اور آئینی حکام کے اختیارات سے متعلق اہم مسائل کو اجاگر کرتا ہے اور اس فیصلے سے عدالتی انتظامیہ اور عدلیہ کے کردار پر اثر پڑ سکتا ہے۔

کاز لسٹ میں ایک اور اہم کیس 2024 کے عام انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی سے متعلق ہے۔ اس درخواست میں الیکشن کو فروری سے مارچ کے پہلے ہفتے میں منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ یہ مقدمہ پاکستان کے انتخابی عمل کی شفافیت اور بروقت انتخابات کے انعقاد کی آئینی حیثیت سے متعلق ہے۔

آئینی بینچ کی تشکیل 5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں ہوئی تھی، جہاں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کی منظوری دی گئی تھی۔ بینچ میں ملک کی چاروں صوبوں کی نمائندگی شامل ہے، جس میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ تاہم، جسٹس عائشہ ملک کی عدم دستیابی کے باعث یہ بینچ 6 رکنی ہو گیا۔ اجلاس میں آئینی بینچز کی مخصوص مدت اور ججز کی نامزدگی پر بھی بات چیت کی گئی تھی۔

آئینی بینچ کے قیام کا بنیادی مقصد آئین کے اہم نکات کی تشریح اور عوامی مسائل کو حل کرنا ہے۔ یہ بینچ ایسے مقدمات سنے گا جن میں آئین اور قانون کی گہری تشریح کی ضرورت ہوتی ہے اور جن کا براہ راست تعلق عوامی مفادات اور ریاستی امور سے ہوتا ہے۔ اس بینچ کی سماعتوں کے دوران کیے جانے والے فیصلے نہ صرف مخصوص کیسز کے لیے اہم ہیں بلکہ مستقبل کے مقدمات کے لیے نظیر بھی بن سکتے ہیں۔

یہ مقدمات نہ صرف عدالت بلکہ ملک بھر میں آئینی، قانونی اور سماجی معاملات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ عدالت کے فیصلوں سے عوامی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے گا اور ان فیصلوں سے آئینی اور قانونی تشریح میں رہنمائی حاصل ہو گی