نومبر شروع ہونے کے بعد سے پنجاب ایک زہریلی دھند سے لڑ رہا ہے۔ صوبے میں بڑے شہر خصوصاً لاہور میں ہوا کا معیار دن بدن خراب ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے ہفتے، شہر کی ہوا کے معیار کا انڈیکس انتہائی خراب سطح پر برقرار رہا۔
سموگ، جس نے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے،اس کی وجہ سے لوگوں کا دم گھٹ کر رہ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق سموگ سے پیدل چلنے والوں اور موٹرسائیکل سواروں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے کیونکہ وہ مسلسل زہریلی ہوا کی زد میں رہتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب بھر کے ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر 100 کے قریب سموگ انفیکشنز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سیکڑوں لوگوں میں فلو، سینے میں انفیکشن اور کھانسی کی تشخیص ہوئی ہے۔ دمہ والے لوگوں کے لیے، یہ صورتحال بدتر ہے۔
2018 کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ بچے سموگ کے نقصان دہ اثرات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ، زندگی کے پہلے سال کے دوران سموگ کی وجہ سے بچپن میں ہی دمہ کا خطرہ 19.87 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
پلمونولوجسٹ ڈاکٹر جئے پرکاش کہتے ہیں کہ جہاں دمہ کے شکار افراد سموگ کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، وہیں خراب ہوا ہر جاندار کے لیے زہریلی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان موسمی حالات کی وجہ سے صرف انسان ہی نہیں، یہاں تک کہ پودے اور جانور بھی متاثر ہورہے ہیں۔
سموگ سے بچنے کے لیےانہوں نے کچھ احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتایا جوعام لوگ اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنا زیادہ تر وقت باہر گزارتے ہیں۔ درج ذیل احتیاطی تدابیر پر عمل کر کے سموگ سے بچا جاسکتا ہے:
- ماسک پہنیں، ترجیحاً دو۔
- آنکھوں میں خارش سے بچنے کے لیے چشمہ پہنیں۔
- گھر پہنچتے ہی چہرہ دھو لیں۔
- زیادہ مقدارمیں پانی پیئں.
- AQI (ائیر کوالٹی انڈیکس) پر نظر رکھیں اور ان علاقوں سے بچیں جہاں ہوا کا معیار خراب ہو.
- سموگ کی صورت میں باہر ورزش کرنے سے گریز کریں۔
- ایسے راستوں کو لینے سے گریز کریں جہاں تعمیراتی کام ہورہا ہو یا بہت بھیڑ ہو۔
- اگر آپ کو دمہ ہے تو ہمیشہ انہیلر ساتھ رکھیں۔
پنجاب کے حکام نے گزشتہ ہفتے ہنگامی اقدامات کرنا شروع کر دیے۔ لاہور میں جہاں سموگ سب سے زیادہ ہے، پانچ اینٹی سموگ سکواڈ تشکیل دے دیے گئے ہیں۔ اسکواڈز میں محکمہ ماحولیات، واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی، میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور، صنعتوں اور پولیس کے افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
ہر سکواڈ ہفتے میں 60 صنعتی یونٹس کا دورہ کرے گا اور غیر معیاری ایندھن یا دھواں پیدا کرنے والے یونٹس کو سیل کرے گا۔ وہ آلودگی کی نگرانی کرنے والے آلات اور ٹھوس یا سبز کچرے کو جلانے والے یونٹوں کی حالت کا جائزہ لیں گے۔
کمشنر لاہور نے کہا کہ ہر سکواڈ روزانہ 12 یونٹس اور ہفتے میں 60 یونٹس چیک کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سزا دینے کے لیے دو ٹیمیں ذمہ دار ہیں۔
منگل کو پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین نے سنسر کا استعمال کرتے ہوئے زمین سے سموگ کی سطح کی پیمائش کرنے کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا۔ سنسر ابتدائی طور پر لاہور کے اقبال ٹاؤن، گلبرگ اور رائے ونڈ میں لگائے گئے ہیں۔ حکام اور لوگ دن کے کسی بھی وقت پرپل ایئر نامی ویب سائٹ پر سموگ کی سطح چیک کر سکیں گے۔
یونیورسٹی کے شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ذوالفقار علی نے کہا کہ محققین اور سرکاری ادارے نئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
سموگ کیا ہے؟
سموگ فضا میں آلودگی اور آبی بخارات کے مرکب سے بنتی ہے۔ یہ صحت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے جیسے دمہ، فلو، کھانسی، الرجی، برونکیل انفیکشن، اور دل کے مسائل وغیرہ۔
محکمہ تحفظ ماحولیات کے مطابق ، فضائی آلودگی میں بنیادی طور پر چلنے والی گاڑیاں، صنعتی اخراج اور فصلوں کی باقیات کو جلانا شامل ہیں.
ستمبر میں، پنجاب حکومت نے پنجاب کے انڈسٹریز، کامرس، اینڈ انویسٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے تحت 200 ملین روپے کا چار سالہ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد اینٹوں کے بھٹوں کو ماحول دوست زگ زیگ ٹیکنالوجی میں تبدیل کرنا اور فضائی آلودگی میں اضافہ کرنے والی صنعتوں کو جرمانے کے لیے فنڈ فراہم کرنا تھا۔ لیکن شہر میں سموگ کا دوبارہ نمودار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اپنے بڑے دعوؤں کے باوجود اس پر قابو پانے میں اب تک ناکام رہی ہے۔
مزید خبریں پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں: صحت