پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 29 سال کا طویل عرصہ گزرا جبکہ آج مداح عہد ساز شاعرہ کا 71واں یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔ پروین شاکر نے 24 نومبر 1952ء کو شہرِ قائد میں آنکھ کھولی جبکہ شہرتِ دوام حاصل کرنے والی پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شاعری کے میدان میں ان کی پہلی پہچان بنا جس کے درجنوں اشعار آج بھی مداحوں کی زبانوں پر ہیں۔ پروین شاکر کی شاعری پڑھیں اور سرور حاصل کریں۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
پروین شاکر کی ایکا ور غزل ملاحظہ کریں
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی