سعودی عرب سے آئے بھائی نے بہنوں کو مار کر لاشیں دریا میں پھینک دیں
ساہیوال کے علاقے تھانہ نور شاہ کے گاؤں جی ڈی/50 میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں سعودی عرب سے واپس آئے بھائی نے مبینہ طور پر جائیداد کے تنازع پر اپنی دو سوتیلی بہنوں، 16 سالہ عائشہ اور 13 سالہ فاطمہ کو قتل کر کے ان کی لاشیں دریائے راوی میں پھینک دیں۔ ملزم، جو کہ بیرون ملک ملازمت کرتا ہے، واردات کے بعد فوری طور پر سعودی عرب واپس روانہ ہوگیا۔
واقعے کی تفصیلات کے مطابق، لڑکیوں کے قتل کے ایک ماہ بعد ان کے چچا جعفر علی کی مدعیت میں تھانہ نور شاہ میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 302، 201، 109 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کے والد ذاکر کو گرفتار کر لیا ہے، جو مبینہ طور پر اپنی بیوی نسرین کے ساتھ مل کر لاشوں کو ٹھکانے لگانے میں مددگار ثابت ہوا۔
ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ قتل کی اصل وجہ جائیداد کا تنازع تھا، تاہم اس واقعے کو غیرت کے نام پر قتل کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی۔ ذاکر نے پہلی شادی شبنم نامی خاتون سے کی تھی، جس سے ان کا بیٹا علی حمزہ پیدا ہوا۔ شبنم کے انتقال کے بعد ذاکر نے نسرین سے شادی کی، جس سے ان کی دو بیٹیاں عائشہ اور فاطمہ تھیں، جو بالترتیب نویں اور پانچویں جماعت کی طالبات تھیں۔
پڑوسیوں کے مطابق، ذاکر کے پہلی بیوی کے بچوں کے اپنی سوتیلی بہنوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے اور دونوں بہنیں ذاکر کی نصف زرعی جائیداد کی حقدار تھیں۔ علی حمزہ نے گزشتہ ماہ پاکستان واپسی پر دونوں بہنوں کو مبینہ طور پر لوہے کی راڈ سے اس وقت مار کر قتل کر دیا جب وہ صحن میں سو رہی تھیں۔
نور شاہ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر اللہ دتا کے مطابق، ملزم علی حمزہ کو شبہ تھا کہ اس کی سوتیلی بہنوں کے مبینہ طور پر ’سانپال‘ قبیلے کے نوجوانوں کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں۔ قتل کے وقت ملزم کے والد ذاکر اور سوتیلی ماں نسرین بھی گھر میں موجود تھے، اور قتل کے بعد ملزم نے دونوں کے ساتھ مل کر لاشوں کو 12 کلومیٹر دور دریائے راوی میں پھینک دیا۔پولیس کی تحقیقات کے مطابق، علی حمزہ نے اپنی سوتیلی ماں اور والد کو قائل کیا کہ لڑکیوں کی حرکتوں سے خاندان کی ساکھ خراب ہو رہی ہے۔
اس نے ان سے قرآن پر حلف لیا کہ وہ معاملے کو راز رکھیں گے۔ قتل کے بعد علی حمزہ سعودی عرب واپس چلا گیا، جبکہ نسرین پہلے بورے والا اور پھر لاہور چلی گئی۔لڑکیوں کے والد ذاکر نے اپنی بیٹیوں کے بارے میں پوچھنے پر دعویٰ کیا کہ وہ لاہور میں اپنی ننھیال گئی ہوئی ہیں، تاہم جب چچا جعفر علی نے شک کا اظہار کیا تو پولیس نے ذاکر کو گرفتار کر لیا۔ نسرین نے 9 ستمبر تک ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے، جبکہ لڑکیوں کی لاشیں اب تک برآمد نہیں ہو سکی ہیں۔
ایس پی انویسٹی گیشن طاہر کھچی نے بتایا کہ پولیس کو خون آلود گاڑیاں ملی ہیں جہاں لڑکیوں کو مارا گیا تھا۔ ریسکیو 1122 کو لاشوں کی تلاش کے لیے بھی درخواست کی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق، علی حمزہ کو ان کے موبائل فون کے ذریعے ٹریس کر لیا گیا ہے، اور انہیں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس لایا جائے گا۔
علی حمزہ نے سوتیلی بہنوں کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسے ان کے ناجائز تعلقات کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔ ڈی پی او فصیل شہزاد نے کہا کہ اگر علی حمزہ وطن واپس نہیں آتا تو پولیس ان کی حوالگی کے لیے انٹرپول کی مدد حاصل کرے گی۔