مصطفیٰ قتل کیس میں اہم سوالات زیر بحث ہیں کہ ارمغان کو ہر جگہ سہولت کیوں مل رہی ہے؟ ذرائع کے مطابق، ارمغان کے خلاف سنگین الزامات کے باوجود، اس کے خلاف کارروائیاں منطقی انجام تک کیوں نہ پہنچ سکیں؟
قابل اعتماد حلقوں میں یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جس لڑکی پر ارمغان نے بیہمانہ تشدد کیا، اس کی ایف آئی آر کیوں درج نہ ہو سکی؟ یہ لڑکی شدید زخمی حالت میں ڈیفنس کے اسپتال میں زیر علاج رہی، مگر مقدمہ درج کرانے میں رکاوٹ کس نے ڈالی؟ اور ارمغان کے خلاف درج لڑائی جھگڑے، دنگا فساد اور منشیات کے کیسز کیوں دبائے گئے؟
یہ بھی حیران کن ہے کہ پولیس چھاپے کے دوران ارمغان نے چار گھنٹے تک فائرنگ کی، جس سے ایک ڈی ایس پی سمیت دیگر اہلکار زخمی ہوئے، مگر اسے گرفتار کیوں نہ کیا گیا؟ پولیس کے مطابق، اس دوران ارمغان نے اپنا لیپ ٹاپ اور ایک موبائل فون کا ڈیٹا ڈیلیٹ کر دیا، جبکہ تیسرے فون کے بارے میں پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ انہیں نہیں ملا۔ اور چار گھنٹے تک پولیس کو کارروائی سے کس نے روکا؟
ذرائع کے مطابق، ارمغان کو سہولت دینے والا اس کا 33 سالہ دوست ہے، جو ایک بڑی سیاسی جماعت کے سینئر رہنما کا چھوٹا بیٹا ہے۔ ایک افسر کے مطابق، ارمغان کے دوست کے والد، ان کے دونوں بیٹے اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس کیس میں اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملزم کو ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے اور وہ وہی بیان دیتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔
یہ انکشافات مصطفیٰ قتل کیس کے حوالے سے کئی نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں کیا ملزم کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہے؟ کیا انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں؟ کیا کیس کے اصل محرکات کو دبایا جا رہا ہے؟