ڈالر بہت سے ممالک کی زرمبادلہ کی کرنسی ہے، جن میں امریکا بھی شامل ہے۔ اس وقت امریکی ڈالر کی قیمت پاکستانی 159روپے ہو چکی ہے، جن ممالک کی کرنسی ڈالر کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے وہ ڈالر کو معیاری سکہ قرار دے کر بین الاقوامی تجارت کرتے ہیں انہیں ڈالری ممالک کہتے ہیں۔ جب کہ وہ ممالک جن کی کرنسی انگریزی پونڈ کے مطابق کم یا زیادہ ہوتی ہے انہیں سٹرلنگ ممالک کہتے ہیں۔ ڈالری ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر سونے یا ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں بھی لگ بھگ 62 فیصد خریدو فروخت اسی کرنسی میں ہوتی ہے اسی لئے ہر ڈالری ملک کو اپنے خزانے میں اتنے ڈالرز رکھنے ہوتے ہیں جتنے درآمدات اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوں۔ یہ توازن برآمدات سے حاصل آمدنی، ٹیکس اور اور دیگر ممالک کے ساتھ تجارت ، غیر ملکی سرمایہ کاری وغیرہ کی صورت قائم رہتا ہے۔ تاہم اگر کسی بھی وجہ سے یہ توازن بگڑتا ہے تو خزانے سے ڈالر کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور مقامی کرنسی کی قیمت گرا کر اس عدم توازن کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے تو خزانے سے ڈالر کم ہونے اور مقامی کرنسی کی قدر گرنے کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے۔ کسی بھی کرنسی کی قدر اسکی رسد و طلب پر منحصر ہوتی ہے۔ جب کسی کرنسی کی رسد میں کمی واقع ہوتی ہے اور طلب میں اضافہ ہوتو اس کی قدر بڑھ جاتی ہے یہی صورتِ حال پاکستان میں ڈالر کی بھی ہے۔
ڈالر کی قیمت کا تعین کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ غیر ملکی کرنسیز میں ڈالر کتنا خریدا جا سکتا ہے۔ زرِ مبادلہ کی مارکیٹوں میں فاریکس ٹریڈرز اس ریٹ کا تعین کرتے ہیں۔ وہ طلب و رسد کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر ریٹ متعین کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سارا دن ڈالر کی قیمت میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔
دوسرا طریقہ مالیاتی بانڈ کی قیمت کا ہے جنہیں بآسانی ڈالر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جب مالیاتی بانڈ کی طلب بڑھے گی تو ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
تیسرا طریقہ زرِ مبادلہ کے ذخائز کے ذریعے قیمت کا اندازہ لگانا ہے یعنی غیر ملکی حکومت نے کتنے ڈالر اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کہ اگر بینک دولت پاکستان کے پاس بڑی تعداد میں ڈالر ہوں لیکن وہ زرِ مبادلہ کے ذخائز بچانے کے لئے اسے مارکیٹ میں ریلیز نہ کرئے تو انکی رسد کم ہوگی اور اس عمل سے امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ ہو جائے گا۔ کسی بھی ملک کی کرنسی کا مستحکم ہونا ملکی معیشت کا مستحکم ہونا ہے اور معیشت کا استحکام، خوشحالی اور ترقی کی صورت میں سامنے آتا ہے
بینک آف انگلینڈ کے سابق ڈائریکٹر کینز نے کہا تھا کہ افراطِ زر کو مسلسل بڑھا کر خفیہ طور پر دولت کا بڑا حصہ ضبط کر لیا جاتا ہے اس کے تحت اگر دیکھا جائے تو پاکستان سمیت دُنیا کے دوسرے ممالک کی امریکی ڈالر میں تجارت خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے۔ پچھلے دو ادوار میں چونکا دینے کی حد تک لوگوں کی ضروریات زندگی کی قیمتوں کو مصنوعی طریقے سے بڑھایا گیا، قرضوں کی ادائیگی کے حصول کے لئے اندرونِ خانہ بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر دانستہ افراطِ زر میں اضافہ کیا گیا۔
دُنیا کا کوئی بھی ملک اسلحہ یا طاقت کے زور پر نہیں چل سکتا اس کے لئے معاشی استحکام ضروری ہے اسکے لیے پاکستان کو چاہیے کہ برآمدات کو بڑھا کر زرِ مبادلہ میں اضافہ کرئے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے مافیاز سے جلد جان چھڑوائے، اپنے اخراجات کم کرئے، اندرونی و بیرونی قرضہ لینے سے پرہیز کرئے، مشکل فیصلوں سے بیرون ممالک اکاوّنٹ کی رقم کو واپس پاکستان لایا جائے اور تجارت کے لئے ڈالر کی حثیت ختم کرئے۔
بقلم؛ کاشف شہزاد