اس میں کوئی شک نہیں کہ قلم کے ذریعے معاشرتی اصلاح نہایت اچھے انداز میں پیش کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایک مستند صحافی ہی معاشرے میں پائی جانے والی اچھائیوں اور بُرائیوں کا مشاہدہ کراتا ہے۔ حکومتوں کا معاملہ ہو یا قوموں کا عروج و زوال یہ سب صحافت سے ہی جُڑے ہیں اسی لئے اسے ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے, دیکھا جائے تو دنیا میں جتنا بھی خیر اور شر موجود ہے اس میں صحافت کا ہی کیا دھرا ہے، شعبہ صحافت شرتب سے بنا جب سے اسے کاروباری لوگوں نے پیشہ بنالیا اور جب یہ بھی فرض اور مشن کے نام سے جانا جاتا تھا تب معاشرے میں خیر ہی خیر موجود تھی کیونکہ ایک کچی اور حق پر مبنی خبر ایک مستند اور ایماندار صحافی ہی پیش کر سکتا ہے، یقینی طور پر یہ سب تماشے اصل اور جعلی صحافت کے گرد گھومتے ہوئے ملیں گے۔
سچا اور اصل صحافی تو غربت میں مجبور موٹر سائیکل سے بھی محروم رہتا ہے جبکہ جعلی صحافت آج کے زمانے میں عروج پر ہے۔ یہ جعلی الیکٹرانک میڈیا صحافی ٹولہ اصل بچے صحافی کو ڈر کی دنیا تک محدود کر دیتا ہے۔ جعلی صحافی کی مثال ایسے ہے جیسے کسی نے سرکاری آفیسر بن کر رشوت لی یا عوام کو لوٹا یا کوئی فائدہ حاصل کیا لیکن وہ ہے جعلی آفیسر, ایسے ہی بلیک میل کرنے والے، لفافے لینے والے، اپنے مفادات کے لئے جھوٹ بولنے والے، جھوٹ لکھنے والے، بغیر تصدیق تہمت لگانے والے صحافی نہیں ہوتے۔ جیسا کہ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے بغیر تصدیق کے باتیں اپنے اپنے بیچ کے ذریعے کی جارہی ہیں، اگر کوئی شخص ایسی باتیں مؤقف لئے بغیر سوشل میڈیا پر ڈالتا ہے اور تہمت لگاتا ہے تو متاثرہ شخص اگر اس قابل نہیں کہ وکیل رکھ سکے تو پریکا ایکٹ 2016 کی تمام صفحات کیساتھ خود پر بیتے ظلم کی ایک درخواست بنا کر وزیر اعظم پاکستان سمیت عدلیہ، اداروں اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو بذریعہ ڈاک بھیج دیں، تو اس سے نہ صرف وہ جھوٹا صحافی معافی کا طلب گار بنے گا بلکہ اُسے اپنے کام سے بھی سبکدوش ہونا پڑے گا۔
آئین پاکستان کی رو سے یوٹیوبریا سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کو صحافی نہیں کہا جا سکتا بلکہ صحافی وہ ہے جو پاکستان کے قوانین کے تحت رجسٹرڈ ہو، لائسنس یافتہ ہو، اور تمام اداروں میں سرٹیفیکیٹ رکھنے کے ساتھ این ٹی این رجسٹر ڈ ہو، ٹیکس ریٹرن والے ادارے کے ساتھ منسلک ہو, پرنٹ میڈیا سے آشنا ہوایسے صحافی کو صحافی کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ جو کنندہ اوصاف کے مالک نہیں ہوتے انہیں میں اس شعبے کی کالی بھیڑیں کہوں گا جو غلط خبر ، یا فیک نیوز کی زد میں ریاستی ایجنسیوں کو بھی بدنام کرنے سے نہیں کتراتے۔
ایسے لوگ سرکاری اداروں، اہم اور نمایاں شخصیت سے مالی یا سیاسی فائدہ حاصل کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کلک ریونیو بڑھانے کے لیے بھی ایسے لوگ سنسنی خیزی سے کام لیتے ہیں، جو جھوٹی خبریا غلط انداز سے لکھی اور شائع کی گئی خبر کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ نام نہاد اور سنسنی خیز صحافیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ خبروں کی درستگی کی تصدیق اور غلط معلومات کو ختم کرنے کے لیے تنظیمیں قائم کی جائیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کو جعلی خبروں کی شناخت کرنے ، ذرائع کا اندازہ لگانے اور میڈیا کے تعصب کو سمجھنے کے لیے تعلیمی پروگرامز اور سیمینارز کے ذریعے آگاہی فراہم کرنی بہت ضروری ہے۔