دُنیا میں کچھ انسانی رشتوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ان رشتوں میں بڑا رشتہ والد اور والدہ کا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر والدہ کے رشتے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور اسکا اظہار بھی ہمیں مختلف صورتوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے بر عکس ہم والد کے رُتبہ سے محبت تو بہت کرتے ہیں مگر اس کے اظہار میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔حالانکہ والد اور والدہ دونوں کا سایہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور دونو ں کی اپنی اپنی اہمیت بھی ہے اور اسے کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماں کے قدموں تلے اگر جنت ہے تو باپ کا احساس بھی ایک بڑے سایہ دار درخت کا سا ہے جو اولاد کے لیے ایک بڑی نعمت سے کم نہیں۔ میں جانتا ہوں جو بچے بچیاں بچپن میں ہی یتیم یا عورتیں جوانی میں ہی بیوہ ہو جاتی ہیں وہی خاوند اور والد کے دُکھ کو محسوس کر سکتی ہیں۔
میر ے ابّا حضور قیصر پرویز باجوہ کو گزرے ہوئے ایک سال بیت گیا اور پتہ بھی نہیں چلا، انکی زندگی میرے لیے ایک عملی جدو جہد کا نام تھی اور یہ جدو جہد انکی زندگی کی آخری سانس تک جاری رہی، جب بھی انہیں تن تنہا ملاہمیشہ نصیحتوں کے دامن میں مجھے چھپائے رکھتے۔میں آج جہاں کھڑا ہوں اور جو کچھ لکھنا، پڑھنا اور بولنا سیکھا ہے اسمیں میرے والدِ گرامی کا بہت اثر ہے، اُنہوں نے مجھے ہمیشہ یہ ہی نصیحت کی کہ بیٹا شخصی ٹکراؤ میں کبھی مت اُلجھنا کیونکہ یہ عمل انسانی شخصیت کو کمزور کرتا ہے اور بہت زیادہ ا فراد کو بنیا د بنانے کی بجائے اجتماعی پہلوؤں اور نظام کی خرابیوں اور اس میں اصلاح کو زندگی کا حصہ بنانا۔اُن کے بقول انسانی کردار مسئلہ میں بگاڑ پیدا کرنے کی بجائے اسکو حل کرنے کا ہی ہونا چاہیے تھاکیونکہ ایسے ہی انسانوں کی معاشرے کو ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا بنیادی ماخذمیری تربیت کا پہلو تھا، وہ کہا کرتے تھے جب تک انسان اپنی تربیت کے نظام کو اصلاح میں نہیں ڈالتا تب تک معاشرہ بگاڑ کا شکار رہتا ہے۔
میرے والدِ بزرگوار نے ایک سال کینسر جیسے موذی مرض کا بڑی جرات سے مقابلہ کیا۔حالانکہ ڈاکٹر نے بہت پہلے ہی جواب دے دیا تھا مگر میرے والدِ گرامی نے اپنی ہمت سے مقابلہ کیا، وہ کہتے تھے کہ ابھی میرے زندگی کے دن باقی ہیں کیونکہ خدائے بزرگ نے مجھ سے خدمت کے ابھی کام لینے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی بیماری اور معاشی تنگدستی کو کبھی بھی اپنے اوپر غالب نہ ہونے دیا، جب بھی روزگار کے لیے گئے بڑی جرات، عزت اور وقار کے ساتھ گئے۔
اگرچہ والد ِگرامی کی وفات کو ایک سال گزر گیا مگر ایسے لگتا ہے کہ بس کل کی بات ہے۔ کمرے میں انکی بڑی تصویر کی موجودگی ان کے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ جب کبھی تھک ہار کر بیٹھتا ہوں تو والدِ بزرگوار کی تصویر کی موجودگی میں ان سے بات کرنا عملاََمجھے نیا حوصلہ دیتا ہے۔ دوسروں کی فکر کو عزت دینے کی وجہ سے ابّا حضور کے دوستوں میں ہر طرح کی سوچ اور فکر کے لوگ تھے اور ان سے تعلقات بھی مثالی تھے۔ ابّا جان کی عاجزی اور درویشی ان کے مزاج کا ایک بڑا حصہ تھی اسی لیے اُنہوں نے ایک نہایت ہی سادہ طرزِ زندگی گزاری، انکی زندگی سے یہی سبق سیکھنے کو ملاکہ اگر زندگی کو آسان بنانا ہے تو زندگی کے رہن سہن کو سادہ اور کفایت شعار بنانا پڑے گا۔ بہر حال ابّا حضور کی یادیں ہمیشہ میرے اور گھر کے دیگر افراد کے ساتھ ہیں۔ انکی یادیں ہمیشہ آنکھیں بھگو دیتی ہیں اور احساس دیتی ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہی کھڑے ہیں اور ہر قدم پر ہم نے انکی اُنگلی تھامی ہوئی ہے۔
ربِ ذوالجلال سے دُعا ہے کہ وہ کریم ذات اُنکی مرقدِ عظیم پر کروڑوں رحمتیں بھیجے اور اُنکے درجات بُلند فرمائے بحقِ آئمہ و طاہرینؑ۔ آمین