پٹرول سستا مگر اشیاء کی قیمتوں میں کمی کیوں نہیں؟
حالیہ دنوں میں حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بظاہر عوام کے لیے ایک خوش آئند خبر ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ تلخ حقائق اور اہم سوالات بھی جنم لیتے ہیں جنہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ جون سے اکتوبر تک پٹرول کی قیمت میں تقریباً 50 روپے فی لیٹر کمی ہوئی ہے جو کسی حد تک عوام کے لیے ریلیف کا باعث بنی ہے لیکن کیا یہ کمی معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے کافی ہے؟ کیا اس کمی کا اثر مہنگائی پر بھی دکھائی دے رہا ہے؟ بدقسمتی سے ایسا نظر نہیں آتا۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کمی عوام تک منتقل کی جا رہی ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کوئی واضح کمی نہیں آئی۔ خوردنی اشیاء، ٹرانسپورٹ، اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتیں اب بھی عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہر چیز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں، مگر کمی کے بعد اس کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟
اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ انتظامی لاپروائی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں تو موجود ہیں لیکن ان کا عملی کردار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر حکومت واقعی چاہتی ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک پہنچے تو اسے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال اور متحرک کرنا ہوگا تاکہ ناجائز منافع خوری اور مصنوعی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔
پاکستان میں مہنگائی کی ایک بڑی وجہ توانائی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ عوام کو مزید مشکلات میں دھکیل رہا ہے۔ توانائی کے نرخوں کا براہ راست اثر مہنگائی پر ہوتا ہے۔ اگر بجلی اور گیس سستی ہو تو اشیاء کی قیمتیں بھی کم ہو سکتی ہیں، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں جو مسلسل اضافہ کیا ہے، اس نے عوام کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی ناگزیر ہے، ورنہ یہ کمی صرف کاغذی حد تک محدود رہ جائے گی اور عوام کی مشکلات میں کمی کی کوئی صورت نہیں نکل سکے گی۔ ساتھ ہی ساتھ، اوور بلنگ جیسے مسائل نے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ حکومت نے اوور بلنگ کے خلاف کارروائی کا اعلان تو کیا تھا، لیکن اب تک اس میں کوئی واضح پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے مہنگے معاہدے ہیں، جو 2054ء تک جاری رہنے والے ہیں۔ ان معاہدوں نے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا باعث بنایا ہے۔ کئی آئی پی پیز تو ایسی ہیں جنہوں نے بجلی پیدا کیے بغیر اربوں روپے کے بل وصول کیے ہیں۔ ایسے معاہدوں پر نظر ثانی ناگزیر ہو چکی ہے، ورنہ عوام کو سستی بجلی فراہم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی خبریں آئیں، لیکن اس کے باوجود عوام کو محدود ریلیف ملا۔ ایران پاکستان کو سستی گیس اور پٹرول فراہم کرنے کے لیے تیار ہے، مگر امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو سکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین، بھارت، اور کئی یورپی ممالک ایران سے سستا تیل خرید رہے ہیں، لیکن پاکستان امریکی دباؤ کی وجہ سے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستانی حکومت اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکتی ہے؟ اگر امریکہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی دیتا ہے تو کیا وہ خود پاکستان کو اسی قیمت پر پٹرول فراہم کرے گا جس پر ایران دینے کو تیار ہے؟
پاکستان کو حال ہی میں آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج ملا ہے۔ اس پیکج کا مقصد ملکی معیشت کو مستحکم کرنا اور عوام کو ریلیف دینا ہے، مگر کیا حکومت اس رقم کو صحیح معنوں میں عوامی فلاح کے لیے استعمال کرے گی؟ ماضی میں ایسے قرضوں کا غیر ضروری استعمال ہوتا رہا ہے اور کئی کرپشن اسکینڈلز سامنے آتے رہے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس رقم کا ایک بڑا حصہ عوام کو براہ راست ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے، خاص طور پر بجلی کے بلوں میں کمی کے لیے۔
ساتھ ہی ساتھ، حکومت کو اشرافیہ کے بے جا اخراجات پر قابو پانے کی بھی ضرورت ہے۔ اگر یہ اخراجات کم نہیں کیے گئے تو عوامی ریلیف کے لیے کی جانے والی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔
مہنگائی میں کمی کے لیے حکومت کو ٹھوس اور جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اس کے لیے سب سے پہلے توانائی کے نرخوں میں استحکام اور کمی لانا ضروری ہے، تاکہ اشیاء کی قیمتیں بھی کم ہوں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک اور فعال بنا کر ناجائز منافع خوری کو روکا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی بھی ضروری ہے، تاکہ عوام کو سستی بجلی فراہم کی جا سکے۔
مہنگائی کے طوفان میں گھرے عوام کے لیے صرف پٹرول کی قیمتوں میں کمی کافی نہیں، بلکہ جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو طویل المدتی ریلیف مل سکے۔ حکومت کو عوامی فلاح کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی تمام کاوشیں بے سود ثابت ہوں گی۔
پاکستان میں موجودہ معاشی حالات میں حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کرنا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اگرچہ ایک خوش آئند اقدام ہے، لیکن اس کا دیرپا اثر تب ہی ممکن ہے جب بجلی کی قیمتوں میں کمی، توانائی کے نرخوں میں استحکام، اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ عوام کی قوتِ خرید بڑھانے کے لیے حکومت کو سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ مہنگائی اور توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے پائیدار حل تلاش کرنا ناگزیر ہے، ورنہ یہ عارضی ریلیف عوام کی مشکلات میں کوئی خاص کمی نہیں لا سکے گا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…
کراچی کے مقامی ہوٹل میں آگ لگنے کے بعد ویمنز نیشنل ون ڈے کرکٹ کپ ملتوی کر دیا گیا ہے۔…
کراچی: درآمدی نوعیت کی ادائیگیوں کے دباؤ کی وجہ سے کاروبار کے دوران امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ…