صحت اور معیشت دونوں داؤ پر
پاکستان میں بڑھتی ہوئی بیماریوں اور صحت عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال ایک ایسی حقیقت بن چکی ہے جسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کے پھیلاؤ نے نہ صرف عوام کی صحت کو متاثر کیا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ طبی ماہرین اور محققین کی رپورٹس کے مطابق بیماریوں کی یہ بڑھتی ہوئی لہر ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اگر احتیاطی تدابیر نہ لی گئیں تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں بیماریوں کے اس طوفان کا سب سے بڑا سبب لوگوں میں صحت سے متعلق آگاہی کا فقدان ہے۔ اگرچہ جدید علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں لیکن ان سہولیات تک رسائی عوام کی اکثریت کے لیے ممکن نہیں رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ صحت کے شعبے میں ناکافی حکومتی بجٹ ہے۔ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد سے بھی کم صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جو واضح طور پر ناکافی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو اس بجٹ کو کم از کم 5 فیصد تک بڑھانا چاہیے تاکہ عوام کو معیاری علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بڑھتی ہوئی بیماریوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کا صحت کا نظام بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ بیماریوں کا بوجھ حکومت اور پرائیویٹ ادارے دونوں ہی برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے۔ لوگوں کی استطاعت ختم ہو رہی ہے اور معیشت پر اس دباؤ کی وجہ سے ملک میں مالی بحران کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں صرف ایک حل باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر کی آگاہی دینا۔ لوگوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے متوازن غذا، سبزیوں کا استعمال، اور ورزش ضروری ہے۔ پروسیس شدہ غذا، تیل، چینی، اور نمک کا کم سے کم استعمال کرنا چاہیے تاکہ مختلف بیماریوں سے بچا جا سکے۔
حکومت کو نہ صرف صحت کے شعبے میں بجٹ بڑھانا ہوگا بلکہ ایک ایسی حکمت عملی بھی اپنانا ہوگی جس کے تحت لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ کی تعلیم دی جائے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال ہزاروں لوگ دل کی بیماریوں، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر موذی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ امراض اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ملک میں لوگوں کو اپنی صحت سے متعلق آگاہی کی شدید ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ صحت مند طرز زندگی کی ترویج کے لیے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو، اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ مختلف مہمات کے ذریعے عوام کو یہ سمجھایا جا سکتا ہے کہ بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے، بشرطیکہ ہم اپنی روزمرہ کی عادات میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔
پاکستان میں صحت کے شعبے کی زبوں حالی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہماری جامعات میں صحت عامہ اور ہیلتھ سسٹم کے حوالے سے مناسب تعلیم کا فقدان ہے۔ ہماری جامعات میں ہیلتھ سسٹم پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ ڈاکٹرز کو صرف طبی تعلیم دی جاتی ہے، جبکہ ہیلتھ کیئر سسٹم کی پیچیدگیاں انہیں سمجھائی نہیں جاتیں۔ اس کے نتیجے میں وہ ڈاکٹرز جو ہماری جامعات سے فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں، وہ ہیلتھ کیئر سسٹم کو پوری طرح سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے۔
ان تمام مسائل کے باوجود اگر عوام کو بیماریوں سے بچاؤ کے حوالے سے آگاہ کیا جائے اور انہیں صحت مند زندگی گزارنے کی تربیت دی جائے تو ملک میں بیماریوں کا بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ صحت کے شعبے میں اصلاحات لائے اور بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے تاکہ عوام کو سستی اور معیاری صحت کی سہولیات میسر آ سکیں۔
عوامی سطح پر صحت کے حوالے سے آگاہی مہمات شروع کی جائیں اور حکومت صحت کے شعبے میں بجٹ میں اضافہ کرے تاکہ ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔ یہ نہ صرف عوام کی زندگیوں کو بہتر کرے گا بلکہ ملکی معیشت کو بھی مضبوطی فراہم کرے گا۔ مستقبل میں اگر یہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پاکستان کو صحت کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس کے اثرات نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔