پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا انقلابی اقدام
پاکستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات اور بہتری لانے کی باتیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن عملی اقدامات ہمیشہ محدود اور روایتی رہے ہیں۔ موجودہ پنجاب حکومت نے بھی اس مقصد کے حصول کے لیے ایک بڑا قدم اٹھایا ہے جس کے تحت صوبے کے ہزاروں سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلایا جائے گا۔ اس اقدام کو بعض لوگ غلط طور پر پرائیوٹائزیشن سمجھ رہے ہیں حالانکہ حقیقت میں یہ ایک منظم اور بہتر حکمت عملی ہے جو تعلیم کے نظام میں بہتری کے لیے کی گئی ہے۔سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ان سکولوں کو مکمل طور پر نجی شعبے کے حوالے نہیں کیا گیا بلکہ انہیں ایک مخصوص فریم ورک کے تحت چلانے کے لیے اشتراک کیا گیا ہے۔ حکومت ان سکولوں کی مالک ہے اور رہے گی جبکہ نجی شعبہ ان کے انتظامات اور معیار کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔
پنجاب میں تعلیمی اداروں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں قائم سکولز میں انرولمنٹ کی کمی، اساتذہ کی کمی اور تعلیمی سہولیات کا فقدان ایسے مسائل ہیں جو سالوں سے حل طلب ہیں۔ ان سکولوں میں اکثر بچوں کی تعداد پچاس سے بھی کم ہوتی ہے، اور اساتذہ یا تو موجود نہیں ہوتے یا پھر وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ تعلیمی معیار پر برا اثر پڑتا ہے۔
اس پروگرام کے تحت نجی شعبے کے تعاون سے تقریباً 18 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جو تعلیم سے محروم تھے دوبارہ سکولوں میں داخل کروایا جائے گا۔پنجاب میں 13,000 سے زائد سکولوں کو اس پروگرام کے تحت چلایا جائے گا جن میں سے 5863 سکولز پہلے مرحلے میں آؤٹ سورس کیے گئے ہیں۔ ان میں سے 567 سکول ایسے ہیں جہاں کوئی استاد موجود نہیں تھا جبکہ 2555 سنگل ٹیچر سکول تھے اور 2741 ڈبل ٹیچر سکولز، یہ سکولز کارکردگی کے لحاظ سے بہتر نہیں تھے اور ان میں انرولمنٹ بھی بہت کم تھی۔ ایسے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ان سکولوں کو دوبارہ فعال بنانا اور بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ایک بڑا چیلنج تھا جسے حکومت نے کامیابی سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس پروگرام کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس اقدام کے تحت حکومت نے 40 ارب روپے کی بچت کی ہے جو قومی خزانے پر ایک بوجھ کم کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے ساتھ 70 ہزار سے زائد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے جو نہ صرف معاشی بہتری اور ملکی ترقی کیلئے ایک اقدام ہے۔
مذکورہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں ایڈ ٹیک فرمز کی شمولیت بھی ایک اہم پہلو ہے۔ اس کے ذریعے طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے گا جو آج کے دور میں ناگزیر ہو چکی ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ کی تعلیمی صلاحیتوں میں بہتری آئے گی بلکہ انہیں عالمی معیار کے مطابق تربیت فراہم کرنے میں بھی مددگار ملے گی۔
حکومت نے اس پروگرام کے تحت 10 لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر تعلیم رانا سکندر حیات کی نگرانی میں ایک جامع نظام بھی وضع کیا گیا ہے تاکہ سکولوں کی کارکردگی کی باقاعدہ نگرانی کی جا سکے۔ وہ سکولز جو اپنی کارکردگی میں بہتری نہیں لا پائیں گے ان کے فنڈز میں کمی کی جائے گی جبکہ بہتر کارکردگی دکھانے والے اداروں کو مزید مراعات دی جائیں گی۔امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں پاکستان ایک مستحکم ملک بنے گا جہاں تعلیمی ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے اور ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔
پاکستان کے سکولز کو پرائیویٹ یا پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (PPP) کے تحت چلانے سے حکومت کو کئی اہم فوائد حاصل ہو سکتے ہیں:
(1)معاشی بوجھ میں کمی:
حکومت کو تعلیمی اداروں کی تعمیر، دیکھ بھال، اور انتظامی اخراجات پر بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ نجی شعبے کی شمولیت سے ان اخراجات میں نمایاں کمی ہو گی۔ حکومت کو سکولوں کی مالی ذمہ داریاں کم کر کے دیگر ضروری شعبوں میں سرمایہ کاری کا موقع ملے گا۔
(2)تعلیمی معیار میں بہتری:
نجی شعبہ زیادہ مستعدی سے کام کرتا ہے، اس لیے سکولوں کی کارکردگی بہتر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پرائیویٹ ادارے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور جدید سہولیات مہیا کرنے پر توجہ دیتے ہیں، جس سے مجموعی طور پر تعلیم کا معیار بلند ہوتا ہے۔
(3) انرولمنٹ میں اضافہ:
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت زیادہ بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ نجی ادارے بہتر انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے سکولوں میں طلبہ کی تعداد بڑھانے کے قابل ہوتے ہیں۔
(4)جدید ٹیکنالوجی کا استعمال:
نجی ادارے تعلیمی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ طلبہ کو ڈیجیٹل تعلیم سے آشنا کیا جا سکتا ہے جو کہ موجودہ دور کی ضرورت ہے۔
(5)کارکردگی کی نگرانی:
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت حکومت کی جانب سے کارکردگی کی نگرانی کا نظام بنایا جا سکتا ہے۔ بہتر کارکردگی والے سکولوں کو انعامات دیے جائیں گے، جبکہ خراب کارکردگی والے سکولوں کے لیے اصلاحات تجویز کی جائیں گی، جس سے تعلیمی معیار میں مزید بہتری ممکن ہو گی۔
(6)حکومتی نگرانی کے ساتھ شفافیت:
حکومت کا کنٹرول برقرار رہتے ہوئے نجی اداروں کو سکولوں کا انتظام سنبھالنے سے شفافیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنائے گئے معاہدے دونوں فریقین کی ذمہ داریوں اور فرائض کو واضح کرتے ہیں۔
(7)سکولز کی مرمت اور بحالی:
نجی شعبہ سکولوں کی مرمت، بحالی اور انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، جس سے دیہی اور پسماندہ علاقوں کے سکولز کو بھی فائدہ ہو گا۔
(8) ریاستی وسائل کی بچت:
جب نجی شعبہ سکولوں کا انتظام سنبھالتا ہے تو حکومت اپنے وسائل کو دیگر ضروری شعبوں جیسے صحت، دفاع، اور سماجی بہبود میں استعمال کر سکتی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ تعلیم کے شعبے میں نئی راہیں کھول سکتی ہے جہاں نجی اور سرکاری ادارے مل کر معاشرتی ترقی اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے کام کر سکتے ہیں۔