بڑھتی ہوئی آبادی کے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے؟
پاکستان میں آبادی کی رفتار میں اتنی تیزی آئی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں ہمیں اس مسئلے کی شدت کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکا۔ حالیہ ڈیجٹیل مردم شماری کی رپورٹ نے اس بات کو عیاں کر دیا ہے کہ پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی شرح دنیا اور خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی تو 2050 تک پاکستانی آبادی دوگنا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اس وقت پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد بھی ایک اہم پہلو ہے۔ یہاں موجود افغانیوں کی تعداد 19 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ دیگر مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی تعداد ایک لاکھ 72 ہزار ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک کی موجودہ آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ ہے، مگر اندازہ ہے کہ یہ تعداد 30 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگرچہ پہلے حکومت کے اعداد و شمار 18 کروڑ کے قریب تھے، لیکن حالیہ مردم شماری نے ثابت کر دیا کہ اس وقت کی پیش گوئیاں درست تھیں۔
ابھی جو اعداد و شمار موجود ہیں ان کے مطابق پاکستان کی آبادی میں اضافہ کی سالانہ شرح 2.55 فیصد ہے۔ اس رفتار سے پاکستان دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔ ترقی کی اس راہ پر چلنا ایک اچھی بات تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لئے تیار ہیں؟
تعلیم اور صحت بنیادی ضروریات ہیں جو کسی بھی قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی اور طبی سہولتوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں 313,418 رجسٹرڈ سکولز، 3 ہزار کالجز اور 200 سے زیادہ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ صحت کے نظام کی صورتحال بھی کافی قابل ذکر ہے، اس وقت 1201 ہسپتال، 5518 بنیادی ہیلتھ یونٹس، 683 دیہی صحت مراکز، 5802 ڈسپنسریاں، 731 گائنی اور بچوں کے مراکز، اور 347 ٹی بی سنٹرز فعال ہیں۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق، ملک میں 274,994 رجسٹرڈ ڈاکٹرز ہیں، جو کہ ایک ہزار افراد کے لئے ایک ڈاکٹر کے تناسب کے قریب ہے۔ مگر شہری علاقوں میں ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی کی شکایت عام ہے، جس کی وجہ سے اتائی ڈاکٹروں کی بھرمار ہو چکی ہے۔
تعلیم اور صحت کے ساتھ ساتھ ملک میں بے شمار بچوں کا سکول سے باہر ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تقریباً 2.5 کروڑ بچے 5 سے 16 سال کی عمر کے درمیان سکول سے باہر ہیں، جبکہ لاکھوں این جی اوز صحت، تعلیم، اور راشن کی فراہمی میں مصروف ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے علاوہ نجی تعلیمی ادارے بھی مہنگی لیکن معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کی مجموعی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر ہے، اور ان میں 29 فیصد 15 سے 29 سال کی عمر کے افراد شامل ہیں۔ یہ پاکستان کو نوجوان آبادی کے حوالے سے دنیا کا نمبر ون ملک بناتا ہے جبکہ 15 سے 29 سال کے درمیان کی عمر کے حوالے سے خطے میں دوسرا بڑا ملک بناتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں بے روزگاری کا مسئلہ بھی سنگین ہے۔ ملک میں بے روزگار اور کام کی تلاش میں سرگرداں افراد کی تعداد 56 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جو کہ 2021 کے مقابلے میں 15 لاکھ زیادہ ہے۔ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 11.1 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ہے۔
پاکستانی قوم کے خیرات بانٹنے کی روایات دنیا بھر میں مشہور ہیں مگر یہ سب کچھ نجی شعبے کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ حکومتی سطح پر آبادی کی بڑھتی ضروریات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تین پاپولیشن ادارے موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی اور اقدامات کی شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔
اقتصادی اصلاحات اور اداروں کی تنظیم نو کا عمل بھی مسائل کا حصہ ہے۔ زیادہ تر اداروں میں سیاسی بھرتیاں اور میرٹ کی کمی کا مسئلہ موجود ہے، جس کے نتیجے میں عوام کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، حکومت کو چاہیے کہ وہ توسیع کے بجائے ہر شعبے میں عمر سے زائد افراد پر پابندی لگا دے اور ایکسٹرا اسامیوں کو بند کرے۔ آبادی میں کمی تو قدرتی عمل ہے، مگر ہمیں آنے والی نسلوں کے لئے مضبوط، پُرامن اور پاکیزہ ماحول فراہم کرنے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت قرضوں کے بوجھ سے نکلے اور ملکی معیشت کو مستحکم کرے تاکہ آنے والے وقت میں عوام کے مسائل کو بہتر طور پر حل کیا جا سکے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں ان مسائل کے حل کے لئے فوری اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ ترقی کی راہ پر قدم بڑھانے کے لئے ایک مضبوط منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ آنے والے وقت میں ہم ایک خوشحال اور مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چند اہم اور عملی تجاویز یہ ہیں:
تعلیمی نظام کی بہتری:
نئے اسکولز، کالجز، اور یونیورسٹیز قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لئے اساتذہ کی تربیت، نصاب کی اصلاح، اور تعلیمی مواد کی بہتری پر توجہ دی جائے۔دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیمی اداروں کی رسائی کو بڑھایا جائے، تاکہ ہر بچے کو تعلیم حاصل ہو سکے۔
صحت کے نظام کی مضبوطی:
نئے ہسپتالوں اور صحت کے مراکز کی تعمیر اور موجودہ سہولتوں کی اپ گریڈیشن کی جائے۔دیہی علاقوں میں صحت کے مراکز کی تعداد بڑھائی جائے اور وہاں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔صحت کی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ عوام بیماریوں کی علامات اور علاج کے بارے میں آگاہ ہو سکیں۔
بے روزگاری کا خاتمہ:
صنعتی اور تجارتی منصوبوں کے ذریعے نئی ملازمتیں تخلیق کی جائیں، اور ہنر مند افرادی قوت کی تربیت کی جائے۔خود کفالت کے پروگرام متعارف کرائے جائیں تاکہ افراد خود اپنے کاروبار شروع کر سکیں۔زراعت اور دیہی ترقی کے منصوبوں پر کام کیا جائے تاکہ دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
معاشی استحکام:
اقتصادی اصلاحات اور پالیسی تبدیلیاں متعارف کرائی جائیں تاکہ معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔سرکاری اداروں کی تنظیم نو اور سیاسی بھرتیوں کے خاتمے کے ذریعے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے تاکہ معیشت میں ترقی کی رفتار تیز ہو۔
پائیدار ترقی:
ماحول دوست ترقیاتی منصوبے متعارف کرائے جائیں اور قدرتی وسائل کے تحفظ کے لئے اقدامات کیے جائیں۔شہری علاقوں میں بہتر منصوبہ بندی کی جائے تاکہ بڑھتی آبادی کے ساتھ شہر کی ترقی بھی ہم آہنگ رہے۔
سماجی بہبود:
خیرات اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر سماجی بہبود کے پروگرام چلائے جائیں تاکہ کمزور طبقوں کی مدد کی جا سکے۔پراپرٹی قوانین کی اصلاح کی جائے تاکہ زمین اور رہائشی سہولتوں کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے۔
پالیسی سازی اور حکومتی کردار:
طویل مدتی پالیسیوں کی تشکیل کی جائے جو بڑھتی آبادی کے چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کی جائیں۔عوام کو آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار اور اس کے اثرات کے بارے میں آگاہی فراہم کی جائے۔
ٹیکنالوجی کا استعمال:
ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا جائے تاکہ خدمات کی فراہمی کو مؤثر اور تیز بنایا جا سکے۔آن لائن تعلیمی پلیٹ فارم متعارف کرائے جائیں تاکہ دور دراز علاقوں کے طلباء بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں۔
ان تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کریں تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھا جا سکے۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…