پاکستانی شادیوں میں پیسوں کی بربادی
پاکستان میں شادیوں کی سادگی کو دوبارہ زندہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ موجودہ دور میں شادیوں پر فضول خرچی کا ایک غیر معمولی رجحان سامنے آیا ہے، جو عام لوگوں کے لیے مالی مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ شادیاں صرف خوشی کا موقع نہیں بلکہ خاندانوں کے درمیان ایک بوجھ بن چکی ہیں۔ ہر دن کی نئی تقریب، ہر موقع پر مہنگے لباس، بے شمار میک اپ سیشنز اور لائیو شوز نے شادیوں کو محض نمود و نمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی فضول خرچی نے کئی خاندانوں کو مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ رجحان سادگی کی روح کو بگاڑ رہا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری شادیوں کی خوشیوں میں سچائی اور سکون کی جھلک نظر آئے تو ہمیں فضول خرچی کے اس غیر ضروری دھارے کو روکنا ہوگا۔ شادیوں کو سادہ بنانا اور ان پر فضول خرچی کم کرنا صرف ایک معاشرتی ضرورت نہیں بلکہ اخلاقی فرض بھی ہے۔ ہمیں اپنی خوشیوں کو مصنوعی اور مہنگے مظاہر کے بجائے، سادگی اور محبت کے سچے اظہار میں تلاش کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم نہ صرف اپنے مالی بوجھ کو کم کریں گے بلکہ شادیوں کے اصل مقصد کو بھی سچا اور خوبصورت بنا سکیں گے۔
پاکستان میں شادیوں کا مطلب اب عیش و عشرت کی ایک ایسی دوڑ بن چکا ہے جس میں صرف امیر طبقہ ہی نہیں بلکہ متوسط اور غریب طبقہ بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ شادیوں کی تیاریوں میں لوگوں کی جمع پونجی کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔ پلاٹ بیچ کر، کمیٹیوں کی رقم لگا کر اور دیگر مالی وسائل کو سرف کرنے کے باوجود شادی کی ہلچل ختم نہیں ہوتی۔ سفید پوش طبقہ بھی اس بڑھتی ہوئی نمائش اور فضول خرچی کا شکار ہے اور اکثر یہ سوچتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی شادیوں کی تیاریوں میں کیسے کامیاب ہو سکے گا۔
یہ سچ ہے کہ پاکستان میں شادیوں کی سادگی اب محض یادوں کا حصہ بن چکی ہے۔ پہلے مہندی اور مایوں جیسے فنکشنز گھر پر ہی سادہ انداز میں منعقد ہوتے تھے، لیکن آج کل ہر فنکشن کے لیے علیحدہ ہال کی بکنگ ضروری ہو گئی ہے۔ ہر فنکشن میں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ مہندی کی رات پر لائیو باربی کیو، قوالی نائٹ، اور دیگر پروگرامز کا انعقاد سٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔ بیوٹی پارلرز میں مہنگے میک اپ کے لیے بُکنگ کروانا اور لاکھوں روپے خرچ کرنا بھی معمول بن چکا ہے۔ دلہن کا میک اپ لاکھوں میں ہوتا ہے، اور شادی کے دن پہننے والے کپڑے بھی اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ انہیں دوبارہ استعمال کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شادیوں کی ایک اور خاص بات اس میں شامل کیے جانے والے تھیمز ہیں۔ ہر دن ایک مخصوص رنگ یا تھیم کے مطابق تیاری کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس تھیم کی بنا پر قریبی خاندان بھی اپنی مالی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ شادیوں کی تصویریں اور فوٹوگرافی کا عمل بھی وقت کی بربادی کا باعث بنتا ہے، کیونکہ ہر دن کی تصاویر اور ویڈیوز پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں شادیوں پر ہونے والے اخراجات میں سالانہ اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے شادیوں کی تیاریوں میں شامل افراد کی مالی حالت پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ شادیوں میں شامل ہونے والے مہمانوں کے لیے بھی یہ سیزن کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ انہیں شادی کی تیاریوں میں ہزاروں یا لاکھوں روپے خرچ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ خاندان کی شادی کے موقع پر سب کو اپنی حیثیت کے مطابق تیار ہونا پڑتا ہے۔
پاکستانی ڈراموں اور میڈیا میں شادیوں کے نمود و نمائش کے کلچر نے بھی اس مسئلے کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ڈراموں میں دکھائے جانے والے شادیوں کے مناظرات نے عام لوگوں کے ذہنوں میں ایسی تصورات پیدا کر دیے ہیں جو حقیقت سے ہٹ کر ہیں۔ شادیوں میں مہنگے کپڑے، بھاری سجاوٹ، اور دیگر فضولیات کو معیار سمجھا جانے لگا ہے، جو کہ معاشرتی معیاروں کی شکست کی علامت ہے۔
یہ صورتحال ہمیں ایک بڑے سماجی بحران کی طرف لے جا رہی ہے، جہاں شادیوں کا سادہ اور خوشگوار موقع اب صرف ایک مالی بوجھ اور اجتماعی پریشانی کا سبب بن گیا ہے۔ اگر اس مسئلے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو معاشرتی توازن مزید بگڑ سکتا ہے۔ شاید اب وقت آ گیا ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے تاکہ شادیوں کے رسم و رواج کو سادہ اور آسان بنایا جا سکے، اور لوگوں کی مالی حالت پر بوجھ کم کیا جا سکے۔
پاکستانی معاشرے میں شادیوں کی فضول خرچی اور نمود و نمائش کی بڑھتی ہوئی لہر ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا ہمیں اس مسئلے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے یا اسی طرح کے معاشرتی بحران کا شکار رہنا چاہیے۔ کیا ہم اس مسئلے کو نظرانداز کرتے رہیں گے یا اس کا حل نکالنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟ اس سوال کا جواب ہمیں خود دینا ہوگا۔