پاکستان میں بچوں کی ناقابل یقین تعداد سکولوں سے باہر
پاکستان میں تعلیم کی موجودہ صورتحال ایک سنگین بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے جس کا براہِ راست اثر ملک کے مستقبل پر پڑ رہا ہے۔ دو کروڑ سے زائد بچے اور بچیاں سکول جانے سے محروم ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی معاشرے کے لیے تشویشناک ہونی چاہیے مگر ہمارے ہاں یہ مسئلہ نہ صرف مسلسل بڑھ رہا ہے بلکہ اس پر کوئی فوری توجہ بھی نہیں دی جا رہی۔
وزارت تعلیم کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ رپورٹ میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ ملک بھر میں دو کروڑ 62 لاکھ 6 ہزار 520 بچے اور بچیاں سکول جانے سے محروم ہیں یہ اعداد و شمار حکومت کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے کافی ہیں لیکن بدقسمتی سے تعلیم کبھی حکومتی ترجیحات میں رہی ہی نہیں۔ اگر پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہمارا تعلیمی بجٹ سب سے کم ہے۔
مالی سال 2023-24 میں پاکستان نے تعلیم کے لیے تقریباً 651 ارب روپے مختص کیے جو کہ ملکی جی ڈی پی کا ایک معمولی حصہ ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے اسی سال اپنے تعلیمی بجٹ کے لیے تقریباً 13.6 بلین امریکی ڈالر مختص کیے جبکہ بنگلہ دیش نے تعلیم کے فروغ کے لیے 8 بلین امریکی ڈالر اور سری لنکا نے 1.6 بلین امریکی ڈالر بجٹ میں شامل کیے ہیں۔ یہ موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی تعلیمی سرمایہ کاری خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔
وزارت تعلیم کی رپورٹ کے مطابق5 سے 9 سال کی عمر کے بچوں کی ایک بڑی تعدادسکولوں سے باہر ہے، اس عمر کے کل 1 کروڑ 7 لاکھ 74 ہزار 890 بچے اور بچیاں تعلیم کے مواقع سے محروم ہیں جن میں 49 لاکھ 72 ہزار 949 لڑکے اور 58 لاکھ 1 ہزار 941 لڑکیاں شامل ہیں۔ اسی طرح 10 سے 12 سال کی عمر کے بچے بھی مڈل سکول کی تعلیم سے قاصر ہیں اس عمر کے کل 49 لاکھ 35 ہزار 484 بچے اور بچیاں مڈل سکول تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے جس میں 21 لاکھ 6 ہزار 672 لڑکے اور 28 لاکھ 28 ہزار 812 لڑکیاں شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس مرحلے میں بھی بچے تعلیم سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو تعلیمی نظام کی خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ہائی اسکول کی تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد بھی تشویشناک ہے ملک بھر میں 45 لاکھ 45 ہزار 537 طلبہ و طالبات ہائی اسکول کی تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے۔ ان میں 23 لاکھ 6 ہزار 882 لڑکے اور 22 لاکھ 38 ہزار 655 لڑکیاں شامل ہیں جو اپنی تعلیمی ترقی کو جاری رکھنے سے محروم ہیں۔ ہائر سیکنڈری سکول کی تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں کی تعداد بھی کافی زیادہ ہے۔ ملک بھر میں 59 لاکھ 50 ہزار 609 طلبہ و طالبات ہائر سیکنڈری تعلیم سے باہر ہیں جن میں 29 لاکھ 92 ہزار 570 لڑکے اور 29 لاکھ 58 ہزار 49 لڑکیاں شامل ہیں۔
یہ اعداد و شمار پاکستان میں تعلیمی نظام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو سکے اور وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
پاکستان میں تعلیم کی بنیادی کمزوریاں مختلف سطحوں پر موجود ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی کمی وسائل کی ہے۔ تعلیم کو ہماری حکومتوں نے ہمیشہ ثانوی حیثیت دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی بجٹ کی کمی اور اساتذہ کی کمی جیسے مسائل تعلیم کی فراہمی میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں۔ بلوچستان جیسے پسماندہ علاقوں میں صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے جہاں ہزاروں سکول صرف اساتذہ کی کمی کی وجہ سے بند ہو چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 35 اضلاع میں 3,500 سے زائد اسکول غیر فعال ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ نہ صرف تعلیمی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے بلکہ حکومت کی بے حسی کی بھی غمازی کرتا ہے۔
حکومت کو فوری طور پر اس بحران کا ادراک کرنا ہوگا۔ اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فوری بھرتیاں کی جائیں اور تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے فنڈز مختص کیے جائیں۔ تعلیمی نظام میں جدید اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے بلکہ ملک کے ہر کونے میں تعلیمی اداروں تک رسائی ممکن ہو سکے۔ دیہی علاقوں میں خصوصی طور پر ایسے تعلیمی منصوبے متعارف کرائے جائیں جن سے بچوں کو ان کی دہلیز پر تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
یہ وقت ہے کہ حکومت محض بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرے۔ تعلیم ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہے جو کسی بھی قوم کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر آج ہم اس بحران پر قابو نہیں پائیں گے تو کل ہماری آنے والی نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔
آج کے دور میں جب دنیا تعلیم میں جدت اور ترقی کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان کو بھی اپنی تعلیمی پالیسیز میں تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ صرف کاغذی منصوبے کافی نہیں، عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سکولوں کو فعال کرنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کو جدید تربیت فراہم کی جانی چاہیے تاکہ وہ بچوں کو معیاری تعلیم دے سکیں۔ ملک بھر میں تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کے معیار کو بھی بہتر بنایا جانا چاہیے۔پاکستان کا مستقبل اس کے تعلیمی نظام سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم آج اپنے بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ہمارا کل بھی تاریک ہوگا۔ تعلیم ایک حق ہے اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر بچے تک اس حق کو پہنچائے۔تعلیم کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا ہے اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے حکومت، والدین، اور معاشرے کو مشترکہ طور پر کوشش کرنی ہوگی۔ تعلیمی بحران کو حل کرنے کے لیے فوری اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا مستقبل روشن ہو سکے۔