Categories: کالم

پاکستان میں نفسیاتی مریضوں کا سیلاب

پاکستان میں نفسیاتی مریضوں کا سیلاب

محسن شہزاد مغل

دنیا بھر میں نفسیاتی مسائل میں اضافہ ایک تشویش ناک حقیقت بن چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگ ذہنی دباؤ، اضطراب اور ڈپریشن جیسی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ مسائل نہ صرف لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ معاشرتی نظام کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صحت کے محدود وسائل ہونے کے باعث نفسیاتی مریضوں کا سیلاب دن بدن بڑھ رہا ہے۔
نفسیاتی مسائل کی بنیادی وجوہات میں معاشرتی، اقتصادی اور ذاتی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری، غربت اور غیر یقینی صورتحال جیسی چیزیں ذہنی دباؤ کو بڑھاتی ہیں۔ معاشرتی سطح پر غیر متوازن تعلقات، خاندان میں اختلافات اور معاشرتی دباؤ جیسے عوامل نفسیاتی مشکلات کا سبب بنتے ہیں۔ ساتھ ہی ذاتی مسائل جیسے کہ بچپن کی صدماتی یادیں، جینیاتی عوامل اور جسمانی بیماریوں کا اثر بھی نفسیاتی مسائل کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان میں بھی نفسیاتی مسائل کی وجوہات یہی ہیں تاہم یہاں سماجی اقدار اور ثقافتی روایات کا اثر بہت زیادہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی بیماریوں کو عموماً نظرانداز کیا جاتا ہے اور علاج کی بجائے لوگ ان مسائل کو قسمت یا بداعمالی کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ دنیا بھر میں نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، تقریباً 1 بلین افراد مختلف قسم کی نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان مسائل کی بڑھتی ہوئی تعداد عالمی صحت کے نظام پر بھاری دباؤ ڈال رہی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن پہلو یہ ہے کہ اس بحران کا براہ راست اثر خودکشی کی شرح میں بھی اضافہ کرتا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنے والا ملک امریکہ ہے جہاں سالانہ لاکھوں افراد ذہنی بیماریوں کی وجہ سے خودکشی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ہر سال تقریباً 48,000 افراد خودکشی کرتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل ہیں۔ بھارت اور چین بھی ان ممالک میں شامل ہیں جہاں نفسیاتی مسائل کی شرح انتہائی بلند ہے اور وہاں بھی خودکشی کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔
وزارت صحت کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8 کروڑ افراد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ یہ ایک انتہائی بڑا اور خوفناک عدد ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ نفسیاتی مسائل کتنی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔نفسیاتی مسائل کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کو شرمندگی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ لوگ علاج کے لئے مدد لینے کی بجائے خاموشی سے اپنی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ مسائل مزید سنگین ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات خودکشی تک جا پہنچتے ہیں۔
نفسیاتی مسائل کا ایک انتہائی خطرناک نتیجہ خودکشی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً 800,000 افراد خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کی شرح میں اضافہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا بھر میں نفسیاتی مسائل کی سنگینی کتنی بڑھ چکی ہے۔پاکستان میں بھی خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، ہر سال پاکستان میں تقریباً 13,000 افراد خودکشی کرتے ہیں اور اس کی بڑی وجہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ ہے۔ یہ تعداد ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو کس قدر نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ان کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے لوگ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں نفسیاتی مسائل کے علاج کے لئے دستیاب وسائل انتہائی محدود ہیں۔ وزارت صحت کے مطابق ملک کے تمام بڑے اسپتالوں میں نفسیاتی علاج کی سہولیات موجود ہیں لیکن یہ سہولیات ملک کی آبادی کے تناسب سے ناکافی ہیں۔ میڈیکل کالجوں میں بھی ذہنی امراض کے شعبے تو موجود ہیں، مگر ان کی تعداد اور معیار وہ نہیں جو ہونا چاہیے۔ ماہرین نفسیات کی کمی، جدید علاج کے طریقوں کی عدم موجودگی اور عوام میں شعور کی کمی اس صورتحال کو مزید بدتر بناتی ہے۔حکومت کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو نہ صرف ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے بلکہ انہیں علاج کی سہولیات بھی فراہم کی جانی چاہئیں۔ سکولوں اور دفاتر میں ذہنی صحت کے بارے میں آگاہی مہمات چلانی چاہئیں تاکہ لوگ اپنے مسائل کا علاج بروقت کروا سکیں۔
نفسیاتی مسائل کا بڑھتا ہوا بحران عالمی اور ملکی سطح پر ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں پہلے ہی صحت کے نظام میں مسائل ہیں وہاں نفسیاتی بیماریوں کا پھیلنا ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ حکومت اور عوام کو مل کر اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔ علاج کی سہولیات میں بہتری، عوام میں شعور اجاگر کرنے، اور ذہنی صحت کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ مسئلہ نظرانداز کیا جاتا رہا تو خودکشیوں اور نفسیاتی مسائل میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا، جو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ایک نہ ختم ہونے والا بحران بن سکتا ہے۔
جدید طریقہ علاج پر عمل کر کے اس امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
1. ذہنی صحت کی قومی پالیسی تشکیل دینا
ایک جامع اور مؤثر قومی پالیسی تشکیل دی جائے جو ذہنی صحت کے مسائل کا احاطہ کرے۔ اس پالیسی کے تحت حکومت کی سطح پر ذہنی صحت کے مسائل کے علاج کے لیے بجٹ مختص کیا جائے اور جدید طبی سہولیات کو اپ گریڈ کیا جائے۔
2. ذہنی صحت کی تعلیم کا فروغ
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ذہنی صحت کی تعلیم کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ اس سے طلبا کو ابتدائی عمر سے ہی ذہنی صحت کے مسائل کو سمجھنے اور ان سے بچاؤ کے طریقے سیکھنے میں مدد ملے گی۔
3. آن لائن مشاورت اور علاج کی سہولتیں
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن مشاورت اور علاج کی سہولتوں کا آغاز کیا جائے، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں جہاں ماہرین نفسیات تک رسائی محدود ہوتی ہے۔ ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارمز کے ذریعے مریضوں کو ماہرین سے مشاورت فراہم کی جائے۔
4. ذہنی صحت کے مراکز کا قیام
ملک بھر میں مخصوص ذہنی صحت کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں لوگوں کو نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے مکمل سہولیات مہیا ہوں۔ ان مراکز میں ماہرین نفسیات، کونسلرز، اور طبی عملہ تعینات کیا جائے تاکہ مریضوں کی مناسب دیکھ بھال ہو سکے۔
5. عوامی آگاہی مہمات
ذہنی صحت کے بارے میں عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ ان مہمات کا مقصد ذہنی صحت کے مسائل کو معاشرتی شرمندگی سے پاک کرنا اور لوگوں کو علاج کی طرف مائل کرنا ہو۔
6. ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے پروفیشنلز کی تربیت
ڈاکٹرز، نرسز، اور دیگر طبی عملے کو ذہنی صحت کے مسائل کی ابتدائی شناخت اور مناسب علاج کے حوالے سے تربیت فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین نفسیات کی تعداد میں اضافے کے لیے حکومت خصوصی اقدامات کرے۔
7. سوشل سپورٹ نیٹ ورکس کا قیام
کمیونٹی کی سطح پر سوشل سپورٹ نیٹ ورکس بنائے جائیں، جہاں لوگ اپنے مسائل دوسروں سے شیئر کر سکیں اور جذباتی سپورٹ حاصل کر سکیں۔ کمیونٹی سپورٹ پروگرامز کے ذریعے افراد کو ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بروقت علاج مل سکتا ہے۔
8. ملازمتوں میں ذہنی صحت کے لیے بہتر پالیسیاں
دفاتر میں ذہنی صحت کی بہتری کے لیے پالیسیاں متعارف کروائی جائیں، جن میں کام کے دوران ذہنی دباؤ کم کرنے کے اقدامات شامل ہوں۔ ملازمین کو ذہنی صحت کے حوالے سے مشاورت اور معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ بہتر طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
9. نفسیاتی مسائل کے اعداد و شمار کا مستقل جائزہ
حکومت کو مستقل بنیادوں پر نفسیاتی مسائل کے حوالے سے ملک گیر اعداد و شمار جمع کرنے چاہئیں تاکہ ان مسائل کے پھیلاؤ اور اثرات کو جانچ کر بہتر حکمت عملی ترتیب دی جا سکے۔
10. نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے انشورنس پروگرام
حکومت اور نجی سیکٹر مل کر ایک انشورنس پروگرام تشکیل دیں، جس کے ذریعے لوگ ذہنی صحت کے علاج کے اخراجات اٹھا سکیں۔ ہیلتھ انشورنس میں نفسیاتی مسائل کے علاج کو بھی شامل کیا جائے تاکہ عام افراد کو بھی علاج کی سہولیات مہیا ہو سکیں۔
یہ تجاویز ذہنی صحت کے مسائل کو سنجیدگی سے لینے اور ان پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ حکومت، سماجی تنظیمیں، اور عوامی سطح پر مل جل کر ان اقدامات کو اپنانا ہو گا تاکہ معاشرے میں ذہنی صحت کے بحران کا خاتمہ ہو اور لوگوں کو ایک صحت مند زندگی کی طرف گامزن کیا جا سکے۔

web

Recent Posts

زمین کے گرد ملبے کا دائرہ، کیا اس نے دنیا کے موسم پر اثر ڈالا؟

زمین کے گرد ملبے کا دائرہ، کیا اس نے دنیا کے موسم پر اثر ڈالا؟ میلبرن: ایک حیرت انگیز تحقیق…

8 گھنٹے ago

2030 تک سعودی عرب شمسی توانائی سے 40 گیگا واٹ بجلی پیدا کرے گا

2030 تک سعودی عرب شمسی توانائی سے 40 گیگا واٹ بجلی پیدا کرے گا ریاض: سعودی عرب نے شمسی توانائی…

9 گھنٹے ago

کراچی میں یومیہ 45 افراد ہارٹ اٹیک کا شکار، 15 فیصد نوجوان نسل شامل

کراچی میں یومیہ 45 افراد ہارٹ اٹیک کا شکار، 15 فیصد نوجوان نسل شامل کراچی: قومی ادارہ برائے امراض قلب…

9 گھنٹے ago

مولانا طارق جمیل نے ہیئر ٹرانسپلانٹ کروالیا، ویڈیو وائرل

مولانا طارق جمیل نے ہیئر ٹرانسپلانٹ کروالیا، ویڈیو وائرل پاکستان کے معروف اسلامی اسکالر اور عالمی شہرت یافتہ مبلغ، مولانا…

11 گھنٹے ago

فیض حمید کا سیاسی کردار فوج کی روایات کے منافی تھا: سیکیورٹی حکام

فیض حمید کا سیاسی کردار فوج کی روایات کے منافی تھا: سیکیورٹی حکام پاکستان کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام نے ایک…

12 گھنٹے ago

علی امین گنڈاپور کا لاہور جلسے کے حوالے سے اہم پیغام جاری

علی امین گنڈاپور کا لاہور جلسے کے حوالے سے اہم پیغام جاری پشاور: وزیراعلی خیبرپختونخوا نے لاہور جلسے کے حوالے…

12 گھنٹے ago