معیشت کو لاحق سنگین خطرات؟اور حل
پاکستان میں توانائی کا بحران کوئی نئی بات نہیںہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بلوں میں اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مڈل کلاس لوگوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ بلوں کی نظر ہو جاتا ہے۔ بلوں میں کمی کے حوالے سے حکومت نے دو مہینے کا عارضی ریلیف دینے کا اعلان کیا تھا لیکن آئی ایم ایف نے اپنے حالیہ بیان میں واضح کیا ہے کہ حکومت موجودہ اقتصادی حالات میں عوام کو بجلی کے بلوں میں کسی قسم کا ریلیف فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ حالات و واقعات بتارہے ہیں کہ عوام اس ریلیف کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکیں گے۔
توانائی بحران کا سب سے اہم پہلو آئی پی پیز (انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کا ایک بڑا حصہ ان نجی بجلی گھروں سے آتا ہے جن کی کارکردگی اور معاہدات پر حکومت اور عوام دونوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے۔ آئی پی پیز کے معاہدات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں اضافہ، کیپسٹی پے منٹس اور دیگر عوامل نے عوام کو مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آئی پی پیز نے ملک کی معیشت کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے۔
حکومتی اداروں کی جانب سے جمع کرائے گئے اعداد و شمار نے واضح کیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خود بجلی کے واجبات ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ یہ بات نہایت سنگین ہے کہ 2 کھرب 56 ارب روپے کے واجبات ادا نہیں کیے جا سکے۔ ایسے حالات میں حکومت سے توقع رکھنا کہ وہ نجی بجلی گھروں کے معاملات کو درست کرے گی دیوانے کا خواب ہے۔ وفاقی حکومت کے مختلف ادارے بجلی کمپنیوں کے نادہندہ ہیں، اور صوبائی حکومتیں بھی اپنے بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں ناکام ہیں۔ اگر حکومتیں خود بجلی کے بل ادا نہیں کر رہیں تو عام شہریوں سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
توانائی بحران کی ایک اور اہم وجہ گیس کی قلت ہے۔ ملکی وسائل سے حاصل ہونے والی گیس کا ذخیرہ دن بہ دن کم ہو رہا ہے اور درآمدی گیس مہنگی ہونے کے باعث عوام تک سستی پہنچانا ممکن نہیں۔ وزیر پٹرولیم کے مطابق حکومت کا خزانہ اس قابل نہیں کہ وہ درآمدی گیس کا بوجھ برداشت کر سکے۔ ایران کے ساتھ گیس منصوبے کی ناکامی اور اس سے جڑے پیچیدہ بین الاقوامی تعلقات بھی بجلی بحران کی شدت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ایران نے پاکستان کو گیس منصوبے کی عدم تکمیل پر حتمی نوٹس دے دیا ہے، جس کے باعث مستقبل میں پاکستان کو بھاری جرمانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بجلی چوری اور لائن لاسز حکومت کے لئے بہت بڑا درد سر اور قومی خزانے پر بھاری ہے۔ بجلی کی چوری کی شرح بعض علاقوں میں 80 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ایسے حالات میں یہ توقع کرنا کہ ہم توانائی کا بحران حل کر سکیں گےممکن نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سمارٹ میٹرنگ سسٹم کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس سے بجلی چوری کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔ مگر یہ سسٹم بھی تمام مسائل کا حل نہیں ہے کیونکہ کنڈا سسٹم جیسے طریقے سے بھی سمارٹ میٹرنگ کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 2897 ارب روپے کا گردشی قرضہ ہو چکا ہے، جس میں 814 ارب روپے کا سود شامل ہے۔ یہ اعداد و شمار نہایت خوفناک ہیں ۔جب تک اس قرضے کی ادائیگی کا کوئی مؤثر حل نہیں نکالا جاتا ہم کسی بھی ترقیاتی منصوبے کو مکمل نہیں کر سکتے۔
آئی پی پیز کے مسائل کے حل کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کا مقصد ان معاہدات اور کارکردگی کا جائزہ لینا ہے۔ لیکن اس کمیٹی کا قیام اور اس کی فعالیت کیا واقعی اس بحران کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکے گی؟ یا یہ محض وقت ضائع کرنے کا ایک اور طریقہ ہوگا؟ عوام کی نظر میں یہ سب سیاست دانوں کے بیانات اور وقتی اقدامات ہیں جو حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکیں گے۔
حکومت نےایک حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ ملک میں بجلی سرپلس ہے ۔ جب ملک میں بجلی کی پیداوار سرپلس ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بجلی سرپلس ہونے کے باوجود اس کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ عوام کو مہنگی بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے، وہاں لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا چوری روکنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی تیار کی گئی ہے؟ ورلڈ بینک کے قرضے سے سمارٹ میٹرنگ کا منصوبہ بلاشبہ ایک اچھا اقدام ہے، لیکن اس کا فائدہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک عوام میں بجلی چوری کی روک تھام کے لیے شعور پیدا نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کے توانائی بحران کا حل ایک جامع اور کثیر جہتی حکمت عملی میں مضمر ہے۔ سب سے پہلے حکومت کو آئی پی پیز کے معاہدات کی شفافیت اور ان کی کارکردگی کا بغور جائزہ لینے کے لیے ایک مؤثر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینی چاہیے تاکہ عوام پر بوجھ کم کیا جا سکے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز کی روک تھام کے لیے سمارٹ میٹرنگ ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ضروری ہے، اور اس کے لیے عالمی قرضوں کی مدد سے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ گیس کی قلت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایران کے ساتھ گیس منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کرنا اور متبادل توانائی کے ذرائع پر توجہ دینا ہوگا۔ گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایک جامع مالیاتی حکمت عملی تیار کرنا ضروری ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نادہندگی کا مؤثر حل شامل ہو۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کو قابو میں رکھنے کے لیے قیمتوں کا جائزہ لینے اور توانائی کے سیکٹر میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات کو مؤثر طریقے سے نافذ کرکے پاکستان توانائی بحران سے نکل سکتا ہے اور معیشت کو مستحکم بنا سکتا ہے۔