بلوچستان میں ترقی کے دشمن کون ہیں؟
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہونے کے باعث ہمیشہ سے دشمن قوتوں کا ہدف رہا ہے۔ ان قوتوں کا مقصد یہاں کے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور ملک کے مختلف حصوں میں تفریق پیدا کرنا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں دہشتگردی ایک سنگین چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے جس کا مقصد ملک کو کمزور کرنا اور معاشرتی استحکام کو تباہ کرنا ہے۔ حالیہ دنوں میں بلوچستان میں ہونے والے واقعات نے اس چیلنج کی شدت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے۔
بلوچستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کو محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ ایک قومی مسئلہ ہے جس کا مقصد پورے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ حالیہ واقعات میں دہشتگردوں نے معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جس میں پاکستانیوں کے خون کو بے دردی سے بہایا گیا۔ یہ واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دشمن قوتیں بلوچستان کو نہ صرف داخلی طور پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک کنفلکٹ زون کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہیں۔
دہشتگردی کے پیچھے کار فرما سازش کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے مختلف پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا۔ اولاً، یہ دہشتگرد گروپ جو بظاہر قوم پرستی کے نام پر کارروائیاں کر رہے ہیں، دراصل ملک دشمن ایجنسیز کے آلہ کار ہیں۔ ان کی فنڈنگ، تربیت اور اسلحے کی فراہمی کے پیچھے بیرونی طاقتیں ہیں جو کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ ان گروپوں کا مقصد صرف دہشتگردی کے ذریعے معصوم لوگوں کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ ملکی سالمیت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔
بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں تیزی کا مقصد سی پیک جیسے منصوبوں کو ناکام بنانا ہے، جو پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ سی پیک کے ذریعے چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں، دشمن قوتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
پاکستان کے خلاف اس منظم سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ہمیں دہشتگردوں کی فنڈنگ کے ذرائع کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان گروپوں کی مالی معاونت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ پاکستان کو عالمی برادری کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ ان دہشتگرد گروپوں کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کو بے نقاب کیا جا سکے۔
ہمیں بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کو مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے عوام کو بہتر روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ بلوچستان کے عوام کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کیا جائے اور ان وسائل کا فائدہ صوبے کے عوام تک پہنچایا جائے۔
ہمیں ملک کے اندرونی معاملات کو بہتر انداز میں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں موجود مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو مزید فعال ہونا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو بلوچستان کے عوام کے مسائل کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان میں موجود سیاسی مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ وہاں کے عوام کو احساس محرومی سے نکالا جا سکے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں عوام کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ ہمیں عوامی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دہشتگردوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔ اس کے لیے میڈیا کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور دہشتگردوں کو ناراض بلوچ یا قوم پرست کے نام سے نہیں بلکہ دہشتگرد کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔ یہ بھی ضروری ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم اپنی سکیورٹی فورسز کے کردار کو سراہیں اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔ملک کی سالمیت اور استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ہر محاذ پر تیار رہنا ہوگا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں اور اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کریں۔
چند تجاویز:
دہشتگردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے انٹیلی جنس اداروں کو مزید فعال اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے۔
آئین کے اندر رہ کر مذاکرات کے فریم ورک کو واضح کیا جائے تاکہ جو لوگ آئینی حدود میں رہتے ہوئے مسائل کا حل چاہتے ہیں، ان کے لیے راستہ فراہم کیا جا سکے۔
بلوچستان کے عوام کو ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا جائے اور انہیں یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ یہ منصوبے ان کی بہتری کے لیے ہیں۔
میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ دہشتگردی کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔