میرا ملک لٹ رہا ہے، کٹ رہا ہے
اس سال ماہِ آزادی ایک ایسی حالت میں آیا ہے جب ہمارا ملک کئی گھمبیر مسائل کا شکار ہے۔ ایک طرف جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقے کچے میں سنگین صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ ہمیں وقفے وقفے سے ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا برائے تاوان کی کہانیاں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں میں ان ڈاکوؤں نے اتنی طاقت اور اعتماد حاصل کر لیا ہے کہ انہوں نے پولیس کے دستے پر جدید ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ پولیس سنبھل نہ سکی۔ اس حملے میں ہمارے 12 پولیس اہلکار شہید ہو گئے، 6 شدید زخمی ہوئے اور 5 کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ دستہ قانون اور امن و امان قائم رکھنے کے لیے اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔
بعد میں متعلقہ اداروں کے مطابق ان 5 پولیس اہلکاروں کو ڈاکوؤں کی مطالبات پورے کر کے بازیاب کروا لیا گیا۔ یہ صورتحال اس وقت اور بھی مزاحیہ ہو گئی جب ایک ڈاکو نے پنجاب کے محکمہ داخلہ کے سرکاری فون نمبر پر کال کی اور کہا کہ وزارت داخلہ پنجاب کی تیار کردہ فہرست درست نہیں ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ان ڈاکوؤں میں اتنا حوصلہ اور طاقت کا احساس ہے کہ وہ براہِ راست وزارت داخلہ کے دفتر کو کال کر سکتے ہیں۔
دوسری جانب ایک رات پہلے ایک وحشیانہ واقعہ پیش آیا جب 23 افراد کو ایک انتہا پسند گروہ نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ ان کے پاس پنجابی شناختی کارڈ تھے۔ یہ وہ گندا کھیل ہے جو غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے عناصر کھیل رہے ہیں، جو نہیں چاہتے کہ میرا وطن، میرا دیس متحد رہے۔ اس لمحے میں میری پہلی اپیل اپنے بلوچ بھائیوں سے ہے۔ اے بلوچ بھائیوں! آپ اپنی مہمان نوازی کے لیے مشہور ہیں۔ یہ قتل صرف آپ کے پنجابی بھائیوں کا نہیں، بلکہ آپ کی روایات اور اقدار کا قتل ہے۔ آپ کے صوبے میں آپ کے پنجابی بھائیوں کا قتل ہوا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ڈاکوؤں یا انتہا پسند تنظیموں کو یہ جدید ہتھیار اتنی آسانی سے کیسے مل گئے؟ ان کے پاس زمین پر کیسے کنٹرول ہے جو ریاست کے پاس نہیں؟ کیا وہ ریاست کے اندر ریاست بن چکے ہیں؟ کیا یہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے؟
اس وقت پاکستان کی ریاست پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان مسائل کا مستقل حل نکالے۔ تمام بدعنوانیوں اور ڈاکوؤں کے ساتھ قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہے جو قانون کے تحت چلتی ہے۔ اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مجرموں کو عبرت کا نشان بنائے تاکہ عوام کو یہ یقین ہو کہ ریاست ان کی حفاظت کے لیے موجود ہے۔
پاکستان زندہ باد، تا قیامت پائندہ باد۔