وسیب ڈوب رہا ہے
فاضل پور ضلع راجن پور کی مغربی سائیڈ سے کوہ سلیمان پر حالیہ بارشوں سے کاہ سلطان کی تاریخ کا بد ترین ایک لاکھ کیوسک اور چھاچھڑ کا پچاس ہزار کیوسک ملا کر ایک لاکھ پچاس ہزار کیوسک سے زائد کے سیلابی ریلوں نے علاقہ پچادھ میں تباہی مچا رکھی ہے۔ جس میں لنڈی سیدان کا حفاظتی بند تنکوں کی طرح بہہ گیا، داجل ، ہڑند ، ٹبی لنڈان ، گرکنہ وزیری ،لعل گڑھ ، بمبلی ،کلہوٹ پور،بستی لشاری ، بستی مڑل ، چٹول، جھوک مکول، میراں پور، حاجی پور ، نور پور کے علاؤہ درجنوں بستیاں زیر آب ، موضعات سون واہ، چک مہیسر ، چک سہرانی ، چک پتیات ، کاں والا اور بستی مڑل ،بستی کشانی اور بستی نظام آباد کے رہائشی گھروں سے بے گھر ہو گئے ۔ جن کا مال مویشی اور فصلیں تباہی کا شکار ہو گئی ہیں۔ جہاں ابھی تک کوئی حکومتی نمائندہ یا ادارہ مدد کے لیے نہیں پہنچا، حکومتی ادارے جن میں اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر اور دیگر پولیس اور ریسکیو کے اہل کار اگر کچھ کر رہے ہیں تو صرف اور صرف سکولوں کو خالی کرواکر چند ایک گھروں کو وہاں منتقل کروارہے ہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی ان کے پاس حل نہیں ہے ، جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو آگے ان کا جواب صرف اور صرف فنڈز کی کمی بتائی جاتی ہے ۔
سیلاب کی تاریخ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ ہر سال ضلع راجن پور کے مختلف علاقوں میں تباہی مچا کر ہمیشہ کی طرح چلا جائے گا ۔ مگر ہم کچھ دن حکمرانوں کو روئیں گے اور گالیاں نکالیں گے اور پھر جس کا نقصان ہوا ہے اسے دوسال مزید لگ جائیں گے گھر کے قرضے اتارنے میں پھر سیلاب آن پہنچے گا ۔
یہ بھی پڑھیں بارشوں اور سیلابی ریلوں نے پاکستان بھر میں تباہی مچا دی
2010 کے سیلاب سے 2024 کے سیلاب تک ہم جیسے تھے ویسے ہیں کچھ نہیں بدلا بس عمر گزر رہی ہے ۔
ضلع راجن پور کے سیاستدان ، سردار ، اور وڈیرے ووٹ مانگنے کے وقت ہی نظر آتے ہیں اس بعد ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہوتا وہ اسمبلیوں کے مزے کر رہے ہوتے ہیں اور اس طرح کی آفتوں کے انتظار میں ہوتے ہیں کیونکہ کہ ان لوگوں کو بیرونی و اندرونی فنڈز ملنے ہوتے ہیں جن کا 5 فیصد بھی عوام تک نہیں پہنچنے دیتے، جو پیسہ عوام کی بہتری اور علاقے کی ترقی پر خرچ ہونا تھا وہ سیاستدان اپنی بہتری اور اپنے بچوں کو بیرون ملک تعلیم دلوانے میں خرچ کر دیتے ہیں اور وسیب کی عوام بے یار و مددگار اور اپنی مدد آپ کے تحت اس تباہی سے بچنے کے لیے اپنی کوششیں کر رہے ہوتے ہیں ۔
اس میں ساری غلطی سرداروں کی یا وڈیروں کی نہیں بلکہ ہماری اپنی بھی غلطیاں ہیں۔ جن سے ہم سب نے سیکھنا ہے اور آئندہ کے لیے اب ہم کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا دورہ رکھوا کر ایک ٹینٹ اور آٹے کے چند تھیلوں کی خیرات تقسیم نہیں کروائیں گے بلکہ ہم اس کا مکمل طور پر مستقل حل چاہتے ہیں.
اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے ڈیمز بنا کر اور مستقل سیلابی پانی کے لیے پختہ بند بنا کر ٹھوس اقدامات کرکے اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لیے سد باب کیا جائے۔