دُنیا میں ابلاغ کے نظام میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے بعد سوشل میڈیا ایک بڑی طاقت بن کر اُبھرا ہے۔ اس سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل میڈیا پر مبنی نظام میں بڑی تیزی سے نئی نئی جہتیں ترقی اور کمالات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ لوگ بھی اپنی بات کو آگے پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ نظام محض میڈیا سے جڑے افراد تک محدود نہیں بلکہ اب تو دُنیا میں موجود تمام فریقین طاقتور ہوں یا کمزور خواندہ ہوں یا ناخواندہ سب ہی اس سوشل میڈیا کے انقلاب سے جڑے نظر آتے ہیں اور اس نظام کو اپنی بڑی طاقت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا نے روایتی میڈیا کے مقابلے لوگوں کو جہاں نئی جہتیں دی ہیں وہیں یہ موقع بھی فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی بات بہتر اور موّثر اندازمیں آگے پہنچا سکیں۔
دُنیا میں اب جو سیاسی سماجی اقتصادی یا علمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اسمیں سوشل میڈیا ایک بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ جو لوگ اس نظام پر تنقید کرتے ہیں عملی طور پر وہ بھی اس ابلاغ کی ترقی سے نا صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ خود کو اس سے تنہا بھی نہیں کر پا رہے۔ یقینی طور پر جو بھی ترقی کے عمل میں نئی چیز آتی ہے اس کو اوّل تو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا۔ دوئم جب وہ آتی ہے تو اسکے کچھ مثبت اثرات کے ساتھ ساتھ ہم کو منفی اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اسکے باوجود ہم ترقی کے اس جدید دور میں اس طرح ابلاغی انقلاب سے نہ خود کو علیحدہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا یہ نظام جہاں نئے نئے انقلاب کو لا رہا ہے وہیں اس نے باقاعدہ ایک پروفیشن کا درجہ حاصل کر کے نئی نسل کے لوگوں کو ایک بڑا معاشی روزگار بھی فراہم کیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں سوشل میڈیا یا یوٹیوب چینلز پر ہونے والی گفتگو پر بہت سے فریقین یا لوگوں میں سخت تخفظات پائے جاتے ہیں ۔ مسلہ محض ریاستی یا حکومتی حساس اداروں پر تنقید کا نہیں بلکہ سیاسی سماجی اور اخلاقی معاملات پر بھی بہت سے لوگوں پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات موجود ہیں۔ پاکستان میں اصل مسئلہ آزادی اظہارِ رائے سے جڑا ہے جس پر یقینی طور پر سمجھوتہ ممکن نہیں کیونکہ ہمارا آئین ہمیں بنیادی حقوق کی ضمانت کے طور پر اظہارِ آزادی کی مکمل آزادی دیتا ہے لیکن اس اظہارِ آزادی کا ایک پہلو ذمہ داری بھی ہے۔ یعنی جو لوگ بھی اظہارِ آزادی استعمال کر رہے ہیں یہ ان پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اظہارِ آزادی بذریعہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
اس وقت ہمیں مجموعی طور پر سوشل میڈیا کے تناظر میں پانچ بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اوّل ہم اسے استعمال تو کر رہے ہیں لیکن ایک بڑا طبقہ اس عمل میں نہ صرف غیر ذمہ داری کا مظاہر کرتا ہے بلکہ تنقید اور تضحیک کے بنیادی فرق کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ دوئم سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر سیاسی ،سماجی, مذہبی اور اخلاقی بنیاد پر انتہا پسند رجحانات کو پروان چڑھانا ہے جس سے ملک میں عدم برداشت کی فضا بلند ہو رہی ہے۔
سوئم ریاستی اور حکومتی سطح پر تنقید کرتے ہوئے حساس معاملات پر ہونے والی گفتگو میں غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ چہارم مسائل یا ایشوز کی بنیاد پر مکالمہ کے کلچر کو فروغ دینے کی بجائے ذاتیات پر مبنی گفتگو کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ پنجم شواہد حقائق اور تحقیق کو بنیاد بنانے کی بجائے فرضی گفتگو کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے اور ہم بطور ریاست، حکومت اور معاشرہ سوشل میڈیا پر جڑے مسائل پر بہتر انداز میں قابو پانے کی بجائے مسلسل مسائل کا شکار کیوں ہو رہے ہیں۔
اصل میں اب وقت آ گیا ہے کہ سوشل میڈیا سے جڑے افراد یا اداروں کے لیے ہمیں اس نظام میں ریگولیٹ یعنی نظام میں موّثر پالیسی اور قانون سازی کرنا ہوگی۔ اس نظام میں شفافیت اور اور جوابدہی کو اپنانا ہوگا اس کے لیے قومی اور صوبائی سطح ہر سائبر پالیسی اور قانون سازی کا نفاذ اور اطلاق کرنا ہوگا کیونکہ کوئی بھی نظام مادر ہدر آزادی کے ساتھ نہیں چل سکتا لوگوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر اُنہوں نے اس نظام سے فائدہ اُٹھانا ہے تو خود بھی ذمہّ داری کا مظاہر کرنا ہوگا۔