پوری دُنیا میں سفر کے لیے مختلف ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں لیکن محفوظ اور سستا ترین ذریعہ ریل گاڑی ہی کو سمجھا جاتا ہے۔ سفر کے اس عوامی ذریعے پر پوری دنیا میں بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔
پاکستان ریلوے کا دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کی ریلوے سے موازنہ کیا جائے تو اچھی خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موجودہ پاکستان میں ریل کا آغاز 13مئی1861کو ہوا تھاجب کراچی سے 169کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا ۔ پاکستان ریلوے ایک حکومتی ادارہ ہے ، 1974میں ذوالفقار علی بھٹو نے خودمختار وزارتِ ریلوے قائم کی تھی اس سے قبل ریلوے وزارتِ اطلاعات کا محکمہ تھا۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لیکر آج تک ریلوے کا کردار تاریخی ہے۔ ڈکٹیٹر جنرل ضیاء کے دور سے پاکستان ریلوے زوال پذیر ہونا شروع ہوئی جبکہ جنرل مشرف کے دور میں ریلوے کے پہیے رُکنے تک کی نوبت آ گئی۔ جنرل قاضی اشرف نے ریلوے کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا۔ چین سے ناقص لوکو موٹو انجن منگوائے جس پر 16ارب روپے کی خطیر رقم ضائع ہوئی۔
تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دعوے تو کئے گئے مگر ریلوے کی ترقی کے لیےعملی طور پر کچھ نہ کیا گیا۔ ریلوے کی حالت سدھارنے اور بہتری پر توجہ دینے کی بجائے موٹروے کی تعمیر پر توجہ دی گئی۔ 90کی دہائی میں موٹروے تو بن گئی مگر ریلوے ڈبل ٹریک کا اہم منصوبہ شروع نہ کیا گیا۔ مبینہ کمیشن اور سستی سیاسی شہرت کے چکر میں اربوں روپے موٹروے پر لگا دئے گئے۔ ریلوے اپنے بہترین ماضی کو لیکر بدترین مستقبل کی طرف بڑھتا رہا یوں پاکستان ریلوے کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ریلوے کی بحالی اور بہتری کے لیے اشتہارات سے آگے کچھ نہ کیا گیا۔ ریلوے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی بجائے ادھورے تجربات سے گزارا جاتا رہا اور یوں ریلوے کے وسائل سیاست اور کرپشن کی نظر ہوگئے۔ 2003میں لودھراں سے رائیونڈ ریلوے ڈبل ٹریک کا منصوبہ شروع ہوا جو 12سال کی مدت میں 2015کو مکمل ہوا 370کلومیٹر کے اس منصوبے ہر 40بلین روپے کی لاگت آئی۔ وزیرِاعظم نوازشریف کی اس منصوبہ میں دلچسپی اور سنجیدگی کا عالم تو یہ تھا کہ جب ڈبل ٹریک منصوبہ کی تکمیل کی تقریب افتتاح کا منصوبہ بنا تو موصوف اسلام آباد سے راوئیونڈ تشریف ہی نہ لا سکے۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس منصوبے کا افتتاح کیا۔
ریلوے کی ترقی سے پاکستان تو ترقی کی منازل ضرور طے کرتا مگر عزیز و اقارب اور سیاسی رفقاء کی زمینوں کی قدر میں اضافہ نہ ہو پاتا۔ پاکستان میں ریل کو چلانے کے لیے لوکو موٹو انجن نہ ہونے کی وجہ سے سفر اور مال برداری کا تمام بوجھ سٹرکوں پر آگیا جس سے ٹرانسپوٹروں کی چاندی ہوئی اور ریلوئے زوال پذیر ہوتا چلا گیا۔
ملک کے13ریلوے اسٹیشن کو ماڈل ریلوے اسٹیشن بنانے کا منصوبہ بنا، جن میں ناروال، ساہیوال، اوکاڑا، بہاولپور، گوجرانوالہ، کوئٹہ ننکانہ صاحب ، روہڑی ، حسن ابدال، کراچی سٹی، حیدرآباد، راولپنڈی اور رائیونڈ کے اسٹیشنز کی تعمیرِ نو شامل تھی۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے بڑے ماڈل ریلوے اسٹیشن اوکاڑا پر صرف 6جبکہ ساہیوال ریلوے اسٹیشن پر 8ٹرینیں آتی ہیں۔ اوکاڑا اسٹیشن کی بڑی عمارت کا 90فیصد حصہ زیرِ تعمیر ہی نہیں جبکہ ٹرینوں رفتار بھی عالمی معیار سے بہت کم ہے ۔ ریلوے سہولیات ناپید، سفر غیر محفوظ اور ٹرین حادثات میں تشویشناک حد تک اضاے کی وجہ سے ملکی ریلوے زبو حالی کا شکار ہے۔
قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پاکستان ریلوے کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے 6ارب80کروڑ67لالھ ڈالر کی لاگت سے ملک بھر کے ریلوے کو اپ گریڈ کرنے کے ایم ایل ون منّبے کی منظور دے دی ہے۔ ایم ایل ون پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس سے نہ صرف ریلوے کے انفراسٹرکچر میں بہتری آئے گی بلکہ ریلوے کا انتظامی ڈھانچہ بھی تبدیل ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ریل کی پٹری ہی قوم کو متحد کرتی ہے اسی لیے ہر پاکستانی ریلوے کو زوال سے نکال کر ترقی کی اعلیٰ منازل طے کرتے دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ ریل کا پہیہ جتنا تیز چلے کا اُتنی ہی تیزی سے پاکستان ترقی کرئے گا۔