پاکستانی قرضہ 315 ٹریلین ڈالر: افواہیں یا حقیقت؟
پاکستان کی مالی صورتحال اور عالمی قرضوں کے حجم پر حالیہ دنوں میں کئی افواہیں اور مبالغے منظر عام پر آئے ہیں۔ حالیہ دنوں ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کا کل قرضہ 315 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ حیرت انگیز اور تشویشناک تھا۔ تاہم اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ اس کالم میں ہم اسٹیٹ بینک کی وضاحت، عالمی قرضوں کی تازہ ترین رپورٹ اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیں گے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں ان خبروں کی سخت تردید کی گئی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کا کل قرضہ 315 ٹریلین ڈالر ہوگیا ہے۔ اس اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جون 2024 تک پاکستان کا کل قرضہ 68 ہزار 914 ارب روپے تھا۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، مالی سال 2024 میں حکومت نے 8 ہزار 73 ارب روپے کا قرضہ لیا ہے، جس سے کل قرضہ میں 13.26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق جون 2024 تک حکومت کا مقامی قرضہ 47 ہزار 160 ارب روپے ہے جبکہ بیرونی قرضہ 21 ہزار 754 ارب روپے ہے۔ مالی سال 2024 میں حکومت نے مقامی سطح سے 8 ہزار 350 ارب روپے قرضہ لیا ہے، جبکہ بیرونی قرضہ 277 ارب روپے کم ہوا ہے۔ اس رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کے قرضوں کی موجودہ حالت میں حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے اور قرضوں کی اضافی مقدار کو کسی مبالغے کے بغیر بیان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب عالمی سطح پر قرضوں کی صورتحال کی بات کریں تو حال ہی میں بزنس ریکارڈر اور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس (IIF) نے عالمی قرضوں کے حجم پر تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ ان رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ عالمی قرضہ کی رقم بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ عالمی قرضوں کا حجم سال کی پہلی سہ ماہی میں 315 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جبکہ عالمی قرضہ کا تناسب کل جی ڈی پی کا 370 فیصد ہو گیا ہے۔ یہ رپورٹ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ 2020 تا 2024 کے دوران عالمی قرضوں میں 21 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کی سہ ماہی عالمی قرضہ رپورٹ کے مطابق، عالمی قرض سے پیداوار کا تناسب مسلسل تین سہ ماہیوں میں کمی کے بعد اب بڑھ کر 333 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ اور جاپان کے بنکوں اور بانڈز کا قرضہ سب سے زیادہ ہے اور مارچ 2024 تک یہ قرضہ جی ڈی پی کا 332.7 فیصد ہوگیا ہے۔ دسمبر 2021 تک یہ قرضہ 304.1 ارب ڈالر تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ قرضوں کی مقدار میں اضافہ اور معیشت کے تناسب میں تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔
کورونا وائرس کے بعد عالمی سطح پر قرضے میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ کے مطابق، عالمی معیشت نے کورونا کے بعد تقریباً 54 ٹریلین ڈالر کا اضافی قرضہ لیا، جو کہ کل عالمی قرضوں کا تقریباً 21 فیصد بنتا ہے۔ جولائی 2024 تک نان فنانشل کارپوریشنز، یعنی وہ کمپنیاں جو مالیاتی خدمات فراہم نہیں کرتیں، نے 94.1 ٹریلین ڈالر کا قرضہ لیا۔ حکومتوں نے بھی بڑے پیمانے پر قرضے لیے، جن کی کل مقدار 91.4 ٹریلین ڈالر تھی۔ مالیاتی سیکٹر، یعنی بینک، انشورنس کمپنیاں اور دیگر مالیاتی ادارے، نے 70.4 ٹریلین ڈالر کا قرضہ لیا۔ اس کے علاوہ، لوگوں نے اپنی ذاتی ضروریات اور اخراجات کے لیے بھی 59.1 ٹریلین ڈالر کا قرضہ اٹھایا۔
پاکستان اور عالمی سطح پر قرضوں کی حالت پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہے کہ قرضوں کا بوجھ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ پاکستان کے قرضوں کی حقیقت اور عالمی قرضوں کی رپورٹوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اسٹیٹ بینک کی وضاحت کے مطابق، پاکستان کا قرضہ ابھی بھی سنبھالنے کے قابل ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ حکومت قرضوں کے مسائل کا مؤثر طریقے سے حل تلاش کرے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ قرضوں کی حالت پر شفاف معلومات فراہم کرے اور عوام کو واضح طور پر بتائے کہ قرضوں کا بوجھ کیوں بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ، عالمی قرضوں کے بڑھتے ہوئے حجم کی روشنی میں، حکومت کو عالمی سطح پر قرضوں کی حالت کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے اور اس کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے، قرضوں کے مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر اقتصادی مسائل کا بھی حل تلاش کرنا ضروری ہے۔یہاں پر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں سٹیٹ بینک کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے ہر فرد کم و بیش 2 لاکھ 87 ہزار 140 روپے کا مقروض ہے۔