قوم کا ہیرو، اولمپک چیمپئن ارشد ندیم
بقلم: کاشف شہزاد
یقین کریں آج ہم بھوکے، پیاسے، غربت میں جکڑے پچیس کروڑ عوام کو اپنے پاکستانی ہونے پر فخر محسوس ہو رہا ہے۔ اتنی اذیتوں کے بعد آج کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی ہم آپس میں ملکر ایک خوشی کو منا رہے ہیں۔ وہ خوشی ہے گولڈ میڈل کی، ارشد ندیم کی کامیابی کی، ارشد ندیم کے ایک جیولن تھرو کی جس نے پاکستان کا سر پوری دُنیا میں سر بُلند کیا ہے۔ ہر کوئی جس کا کسی بھی طرح سے ارشد ندیم کے ساتھ کبھی رابطہ رہا ہے وہ سوشل میڈیا کے توسط سے اپنے تعلق اور رشتہ کو نمایا ں کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ارشد ندیم کی کامیابی کا جشن منانے اور خوش ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہماری یہ ہے کہ بحثییتِ قوم ہم نے کئی برسوں سے خوشیاں نہیں دیکھیں۔ سیاسی لڑائیوں، معاشی مسائل اور دہشت گردی کے واقعات نے مُلک و قوم کو گھٹنوں پر لا بٹھایا ہے۔ اس ذہنی طور پر پریشان قوم و ملت کے لئے عین گرمی کے موسم میں ارشد ندیم کی دُنیا میں کامیابی عین ٹھنڈک ثابت ہوئی۔
پاکستان کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ قوم کے بیٹے ارشد ندیم نے رات کے اندھیرے میں ایسی روشنی جلائی، جس سے پوری قوم روشن ہو گئی۔ قوم کے بیٹے کو اپنے کھیل سے عشق تھا اسی لئے وہ حکومت کی توجہ سے ماورا، ہمہ تن گو اپنے فن پر توجہ دیتا رہا, آج وہ وقت دُنیا نے دیکھا کہ اس قوم کے بیٹے نے کھیل کی تاریخ کا 118 برس کا ریکارڈ توڑ کے رکھ دیا۔ ارشد ندیم کی کامیابی اور غربت سے عروج کی داستان ساری دُنیا کے لئے مثال ہے، جنہوں نے محنت کے بل بوتے پر سب کچھ بنایا۔ آپکو بتاتا چلوں کہ پیرس اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ٹوٹل 7 ایتھلیٹس تھے ، جن میں 6 ایتھلیٹس بالکل ناکام ہوئے، ان کی ناکامی کے بعد ساری قوم کی نظریں اس مردِ مجاہد پر جم گئیں, اور پھر ہوا یہ کہ ارشد ندیم نے جیولن تھرو کے فائنل راونڈ میں سب سے طویل 92.97 میٹر تھرو پھینک کر دُنیا میں تاریخ رقم کر دی اور اولمپیکس گیمز کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ پاکستان کا یہ روشن باب، نامساعد حالات میں تن تنہا خود کو منوانے اور اپنی الگ دُنیا پیدا کرنے کے لئے ایک عظیم کامیابی کا سبق ہے۔ ارشد ندیم جیسے ہی جوان ہمیشہ ستاروں سے آگے جہاں ڈھونڈتے ہیں مگر انکے راستوں میں رکاوٹیں زیادہ کھڑی کی جاتی ہیں, ان کی راہوں میں ناکے لگا کر انہیں روکا جاتا ہے مگر حوصلہ شکنی کے اس ماحول کو اپنی ہمت بنا کر انہونیوں کو ہونیوں میں ڈالنے سے ہی انسان امر ہوتا ہے۔ ارشد ندیم تو رواں دواں تھا ہی جو اس نے اپنے عزم کے مطابق ہر حال میں رہنا تھا لیکن انکی قوم کے لئے انکی عظیم کامیابی کا یہ پسِ منظر, پاکستانی حکمرانوں اور اشرافیہ کے لئے بڑا سبق ہے کہ وہ نوجوانوں، غربا اور دیہات سے متعلق اپنے جھوٹے اور گمراہ کُن خیالات میں تبدیلی لائیں تاکہ پاکستان کی نوجوان نسل اپنی تازہ دم ذہنی و جسمانی صلاحیتوں سے مملکتِ خدادا کی تھکاوت اور نقاہت کو دور کر سکیں۔