25سے 30 ہزار روپے تنخواہ والا کہاں جائے؟
فقیر حسین
پاکستان میں عوام کی زندگی پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور اب حکومت کی جانب سے بجلی، گیس، اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا رجحان ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے جاری ہے اور اب عوام کے لیے یہ برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کے دعوے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں اور عوام کی حالت زار کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آ رہا۔
حکومت نے حال ہی میں بجلی کی قیمتوں میں ایک اور اضافہ کر دیا ہے جو کہ عوام کے لیے ایک اور جھٹکا ہے۔ نیپرا نے جون 2024 کی فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت بجلی کی قیمت میں 2 روپے 56 پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اضافہ صرف ایک ماہ کے لیے نافذ العمل ہوگا اور اس کا اطلاق کے الیکٹرک اور لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔ اس اضافے کے نتیجے میں ملک بھر کے بجلی صارفین کو اگست کے بلوں میں یہ اضافی رقم ادا کرنی ہوگی۔
یہ اضافہ سی پی پی اے کی جانب سے 2 روپے 63 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست پر کیا گیا تھا، جس پر نیپرا نے 2 روپے 56 پیسے کا اضافہ منظور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے سلسلے میں بھی ایک قدم اٹھایا ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری کی قیادت میں بنائی گئی ٹاسک فورس نے 15 آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر یہ معاہدے ختم ہو جاتے ہیں تو شاید عوام کو کچھ ریلیف مل سکے، لیکن اس پر عمل درآمد کب ہوگا، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی گیس کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ عوام کے لیے ایک اور بوجھ بن چکا ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے نے گھریلو صارفین کے بجٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سردیوں میں گیس کی مانگ میں اضافے کے ساتھ ہی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے ناقابلِ برداشت بوجھ بن گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے گیس کے نرخوں میں اضافے کا جواز مختلف ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اضافے عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس نے عوام کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ آٹا، چاول، دالیں، سبزیاں، اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ اضافے صرف عارضی نہیں ہیں، بلکہ یہ طویل مدتی تبدیلیوں کا حصہ ہیں جو عوام کی زندگیوں کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ مہنگائی کی یہ لہر عوام کے بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں بھی مشکلات پیدا کر رہی ہے، اور لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔
حکومت کے اقدامات عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے ان پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔ مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام خودکشیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس زندگی کے بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ یہ ایک سنگین صورت حال ہے، جو کہ حکومت کی عدم توجہی اور ناکامی کا نتیجہ ہے۔ حکومتی اقدامات عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کر رہے ہیں، اور عوام کے لیے سکھ کا سانس لینا محال ہو گیا ہے۔
پچھلے ایک کالم میں بھی میں نے مہنگائی کی صورت حال کا ذکر کیا تھا، کہ مہنگائی نے عوام کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے۔ لوگوں کی تنخواہیں کم ہیں اور مہنگائی کے مقابلے میں ان کی قوت خرید کم ہو گئی ہے۔ پرائیویٹ جاب کرنے والے لوگ جن کی تنخواہیں 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ ہیں، وہ اپنے گھر کے بجلی، گیس کے بل ادا کرنے یا بچوں کا پیٹ پالنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے جو فوری توجہ کی متقاضی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کی حالت زار کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرے۔ اگر حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں نہ ڈالے۔ عوام کا جینے کا حق نہ چھینے اور ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اگر موجودہ حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور ملک میں افراتفری اور بدامنی کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں سنا گیا ہے کہ پاکستان میں کچھ طلباء تنظیموں نے احتجاج اور ریلیوں کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ چنگاری اگر بھڑک اٹھی تو حکمرانوں کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ طلباء کا احتجاج حکومتی پالیسیوں کے خلاف ایک بڑا احتجاج ہو سکتا ہے، جو کہ پورے ملک میں پھیل سکتا ہے۔ اس صورت میں حکمرانوں کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اور انہیں عوام کی مشکلات کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں موجودہ حالات کی روشنی میں یہ کہنا کہ حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کوئی مبالغہ نہیں۔ بجلی، گیس، اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی زندگیوں کو مشکل بنا دیا ہے، اور حکومتی دعوے عوام کے لیے کوئی تسلی بخش حل فراہم نہیں کر رہے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت عوام کی حالت زار کا سنجیدگی سے جائزہ لے اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرے، تاکہ ملک میں ایک بہتر اور خوشحال معاشرت قائم ہو سکے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل کا بہترین استعمال کرے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ صرف دعوے کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، اور اس کے لیے حکومت کو ایک جامع اور پائیدار پالیسی کی طرف بڑھنا ہوگا تاکہ عوام کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔