چڑھتے سورج کوسلام۔
وسائل کی کمی راستہ نہیں روک سکتی،ارشدندیم نے خودکومنوالیا
تحریر:محسن شہزاد مغل
پاکستانی اتھلیٹ ارشد ندیم نے خودکومنواکریہ ثابت کردیاہے کہ چڑھتے سورج کوسلام ہے باقی کسی کوکوئی نہیں پوچھتایہ وہی ارشدندیم ہے جو3سال قبل پاکستان کیلئے گولڈمیڈل نہیں جیت سکاتھاکوکسی نے پوچھاتک نہیں تھاکہ کوئی ارشدندیم بھی ہے جس نے پاکستان واپس آناہے اس کااستقبال کرناہے کھلاڑی ملک کی شان ہوتاہے لیکن یہاں الٹ ہی کام ہے آج ارشدندیم نے گولڈمیڈل جیت لیاتواسے سرپربٹھایاجارہاہے جبکہ 3سال قبل جب وہ کامیاب نہیں ہوسکاتوکسی نے اسے پوچھاتک نہیں تھااس بات کوکرتے ہوئے بہت تکلیف ہورہی ہے کہ 3سال قبل جب ارشدندیم ملک واپس آرہاتھاتوکسی کوکوئی پرواہ نہیں تھی کہ اس کااستقبال بھی کرناہے اس کے گھروالے اسے میاں چنوں سے اپنے لخت جگرکولینے کیلئے جاناچاہتے تھے لیکن ان کے پاس لاہورایئرپورٹ پرجانے کیلئے ان کے پاس پیسے نہیں تھے لیکن اس وقت ہم نے اس کابندوبست کروایااورانہیں بس کرواکردی کہ وہ اپنے رشتہ داروں کیساتھ ملکرایئرپورٹ پرجائیں اورارشدندیم کواپنے ساتھ میاں چنوں لیکرآئیں اس کے گھروالے ایئرپورٹ پرپہنچ توگئے لیکن ایئرپورٹ انتظامیہ نے انہیں خوارکرکے رکھ دیاارشد ندیم کے رشتہ داروں کودورکی بات ہے اس کے والداوروالدہ کوبھی ایئرپورٹ پرداخل نہیں ہونے دیاپھرہمارے ایک اوردوست اویس طاہرنے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے ان کی ایئرپورٹ پرانٹری کروائی اورہم نے تب ہی کہہ دیاتھاکہ یہ بندہ بہت آگے جائیگا اوراگلی بارگولڈمیڈل جیت کرلائے گااورآج وہ بات ارشدندیم نے سچ ثابت کردی ہے جوہم نے3سال پہلے کہاتھاکہ وہ ارشدندیم نے کردکھایاہے آج یہ اس وقت کی انتظامیہ اوراس کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کے منہ پرطمانچہ ہے جنہوں نے اس ٹائم اسے اگنورکیاتھاایک اوربات کرتاچلوں یہاں میں 3سال پہلے جب ارشد ندیم اولمپکس کھیل کر ملک واپس آئے تو ہمارے دوست وقار ذکاء نے ارشد ندیم کو 10لاکھ روپے کیش دیاتھاارشدندیم نے جتنی محنت اورجن حالات میں محنت کی ہے ہم اس کے عینی شاہدہیں اوراس نے ثابت کیاکہ وہ 25کروڑکی آبادمیں ایک ہی شخص ہے جس نے ملک کانام روشن کیاجتنی محنت اس نے کی شایدہی کوئی ایسابندہ ہوجس نے اپنی زندگی میں اتنی جدوجہد کی ہو بہت مشکل حالات اورکٹھن محنت ،لگن اورجدوجہد کے بعد آج ارشدندیم کویہ وقت دیکھنے کاموقع ملاہے آج حکومت اورہرمقتدرحلقہ اس کی تعریف کررہاہے جیسے کے ان کی ہی بدولت وہ آج یہاں تک پہنچاہے اگراس پرپہلے ہی توجہ دی ہوتی اسے سہولیات دی ہوتی تووہ 3سال پہلے ہی پاکستان کانام روشن کرچکاہوتالیکن آج ہمیں خوشی ہورہی ہے ارشد ندیم اپنے مشن میں کامیاب ہوگیاہےارشدندیم کی جگہ اگرکوئی اورکھلاڑی ہوتاتوشایدہمیت ہارجاتاہے یادل برداشت ہوکرکھیل چھوڑ کراپنے کھیتوں میں کھیتی باڑ ی کررہاہوتالیکن ارشدندیم نے آج خودکومنوالیاہے آج حکومت بھی کہیں سکیورٹی اورکہیں انعامات کااعلان کررہی ہے توکہیں پروٹوکول کابندوبست کیاجارہاہے اس طرح کے کام کرکے اس کے چاہنے والوں پرپابندی کے مترادف ہوگاکیوں کے آپ کوآج اس کااحساس ہواہے لیکن اس کے رشتہ دارعزیزواقارب اوردوستوں نے اس کاساتھ دیاحوصلہ دیاجس کی وجہ سے وہ آج اس مقام پرہے پیرس اولمپکس 2024 میں ارشد ندیم نے جیولین تھرو کے مقابلے میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 92.97میٹر کی تھرو کی اور بھارت کے نیرج چوپڑا کو پیچھے چھوڑ دیایہ اولمپک کی سب سے بہترین جبکہ دنیا میں اب تک پھینکی جانے والی چھٹی سب سے طویل جیولن تھرو تھی ارشد ندیم نے جیولین تھرو میں اولمپکس کی 118 سالہ تاریخ کا ریکارڈ بھی توڑ دیااس جیت کیساتھ ارشد ندیم نے پاکستان کو 40 سال بعد اولمپک کھیلوں میں پہلا گولڈ میڈل جتواکرپاکستان کانام روش کردیاہےجس پر صدر مملکت آصف علی زرداری نے ارشد ندیم کو بہترین کارکردگی پرہلال امتیاز عطا کرنے کی ہدایت کردی ہےمتوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ارشدندیم نے انتھک محنت سے ثابت کیا کہ وسائل کی کمی راستہ نہیں روک سکتی یہ وہی ارشدندیم جو3سال قبل گولڈمیڈل نہیں جیت سکاتھالیکن اس نے ہمت نہیں ہاری آج اس نے وہ کردکھایاہے جووہ کرناچاہتاتھاارشد ندیم نے اولمپکس میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 92.97میٹر کی تھرو کے ساتھ فائنل کے دوسرے راؤنڈ تک رسائی حاصل کی جبکہ دوسرے راؤنڈ میں انہوں نے اپنی آخری تھرو میں 91.79میٹر پھینک کر ایک نئی کامیابی کا سنگ میل عبور کیا کوئی اور ایتھلیٹ 90 میٹر سے زائد کی تھرو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکااور اس طرح ارشد ندیم نے 40 سال بعد پاکستان کیلئے اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتاپاکستان نے آخری بار 1984ء میں ہاکی کے ایونٹ میں کامیابی حاصل کی تھی اور اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا جبکہ 1992ء میں بارسلونا اولمپکس میں قومی ہاکی ٹیم نے ہالینڈ کو شکست دے کر کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا یہ 77 سال میں پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے انفرادی طور پر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا ہےمیڈل جیتنے کے بعد ارشد ندیم نے کہامیں ردھم میں تھا اور پرامید تھا کہ گولڈ میڈل جیتوں گا آج میرا دن تھا اور مجھے امید تھی کہ میں کچھ کر جاؤں گا میں اس سے بھی زیادہ دور پھینک سکتا تھا ہم 14 اگست کو گولڈ میڈل کیساتھ جشن منائیں گے۔ارشد ندیم کی کامیابی نے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے ان کے گھر کے باہر جشن کا سماں ہے، اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ میاں چنوں کے شہزادے نے سب کے دل جیت لئے ہیں ہر شہر میں ارشد ندیم کی کامیابی کو سراہا جا رہا ہے، اور انہوں نے پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔