بنگلہ دیشی قوم ایک بار پھر آزاد ہو گئی
بقلم: کاشف شہزاد
بنگلہ دیش کی سابقہ وزیرِ اعظم حسینہ واجد کا دورِ اقتدار 2009 سے شروع ہوا تھا اور تب سے آج تک محترمہ جبر و ستم کے بل بوتے پر پورے مُلک پر راج کرتی رہیں۔ مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے بنگلہ دیشی عوام کے سینے میں جو لاوا پھٹا وہ اسی جبر کی بدولت تھا۔ مسلسل پندرہ سالوں سے عوام اپنی وزیرِ اعظم کا کرود دلوں میں پال رہے تھے، اب جا کر حالات ایسے پیدا ہوئے کہ سارا مُلک بغاوت پر اُتر آیا۔ شیخ حسینہ واجد نے اس سال جنوری میں حالات ہی کچھ اس طرح کے مُلک میں پیدا کر دئیے تھے کہ انکے مخالفین کو اس سال کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا جسکی پروا کئے بغیر ایک بار پھر سے شیخ حسینہ مسندِ اقتدار پر برجمان ہو گئیں، یہاں سے حالات خراب ہونے شروع ہوئے اور کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج اسکی انتہا بنا۔ انکے دورِ اقتدار میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ وہ اپنے مُلک میں تو مقبول تھیں مگر وطنِ عزیز پاکستان کے لوگ بھی انکی تعریف کرنے کو نہ کتراتے لیکن آخر کار وہی ہوا جو اکثر صاحبِ اقتدار لوگ کرتے ہیں۔ جب مُلک کے ذمہ دار عوامی خدمت کی بجائے تکبر اور تکمیلِ خواہشات کو اپنی منزل بنا لیں پھر ایسے ہی ہوتا ہے جیسے شیخ حسینہ کے ساتھ ہوا۔ وہ عوامی مسائل حل کرنے پر توجہ کم اور مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگانے پر زیادہ زور دینے لگیں، اس کے ساتھ ساتھ اپنی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے پر توجہ مرکوز کرنے لگیں۔
حریفوں کو جیلوں میں ڈالنے لگیں، مخالف جماعتوں پر پابندی عائد کرنے لگیں، صحافت پر پابندی لگانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہر نقاد کی زبان بندی کی طرف توجہ مرکوز کرنے لگیں۔ پندرہ سالہ مسلسل رہنے والے دورِ اقتدار کو انہوں نے ہر طرف سے محفوظ بنایا تھا مگر کوٹہ سسٹم کے خلاف ایک چھوٹے سے احتجاج نے ایک تحریک کو جنم دیا اور وہ تحریک انکے اقتدار کے سورج کو لے ڈوبی۔ بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ ہونے کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تاہم کوٹہ سسٹم کے تحت تقریباً چوون فیصد ملازمتیں جن کی تعداد لاکھوں میں بنتی ہے مخصوص طبقات میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ ان سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصّہ ان افراد کے اہلخانہ کے لئے بھی مخصوص تھا جنہیں بنگلہ دیشی آزادی کا ہیرو تصور کرتے ہیں جبکہ 46 فیصد ملازمتیں میرٹ پر دی جاتی ہیں۔ مخالفین و ناقدین کا کہنا تھا کہ مُلک میں بڑھتی مہنگائی اور غربت کی وجہ بھی یہی حکومتی بد انتظامی تھی جس پر بنگلہ دیشی طلبہ نے احتجاج شروع کیا جسے روکنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، جس کے نتیجے میں سینکڑوّں افراد لقمہ اجل بنے۔
حالات کی نوعیت جب یکسر بدلی تو شیخ حسینہ نے مُلک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا لیکن بنگلہ دیش کے ریٹائرڈ فوجیوں نے ہر جگہ پریس کانفرس میں اپنی فوج پر زور دیا کہ وہ عوام کے خلاف نہ آئیں، ریٹائرڈ افسران کی موّثر آواز کی بدولت بنگلہ دیشی آرمی نے اپنی عوام کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس پر حسینہ واجد ملک و اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئیں۔ اُنہوں نے اپنے ملک کو خیر آباد کہنے سے قبل ایک خطاب کی اجازت چاہی مگر اُنہیں یہ موقع نہ دیا گیا اور وہ سب چھوڑ چھاڑ کر اپنے دلِ دیدہ وطن بھارت روانہ ہو گئیں۔ شیخ حسینہ واجد شیخ مجیب کی میراث کو تباہ کرتے ہوئے چلی گئیں اور آج حالات یہ ہیں کہ عوام شیخ حسینہ اور شیخ مجیب کی ہر علامت کو مسمار کر رہے ہیں۔