بنگلہ دیش میں طلبہ کی احتجاجی تحریک نے جبر کی لہر کا خاتمہ کر دیا ہے۔ طلبہ تحریک کے رہنماؤں کی دھمکی کے بعد صدر محمد شہاب الدین نے پارلیمنٹ تحلیل کردی احتجاجی طلبہ نے عبوری حکومت کے لیے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کا نام دیا ہے جب کہ ڈاکٹر یونس نے بھی عبوری حکومت کی سربراہی کرنے کی حامی بھر لی ہے دوسری جانب بنگلادیشی صدر کے احکامات کے بعد بنگلادیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء کو بھی قید سے رہا کردیا گیا اس کیساتھ ہی بنگلادیشی فوج میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑکرتے ہوئے ، انٹیلی جنس چیف کو ملازمت سے برطرف کردیاگیااوربنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کادفتر 13سال بعد کھول دیاگیاہےبنگلادیش کی فوج میں حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر تقرر اور تبادلے کئے گئے ہیں۔ بنگلادیش کے انٹرسروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) نے ایک اعلامیہ جاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ میجر جنرل ضیاء الاحسن کو ان کی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ میجر جنرل ضیاء الاحسن نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ سینٹر (این ٹی ایم سی) کے ڈائریکٹر جنرل تھے، جو وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ این ٹی ایم سی ملکی حالات پر نظر رکھنے، اعداد و شمار جمع کرنے، کمیونیکیشن مواد کی ریکارڈنگ، ای میلز، سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی اور فون کالز ریکارڈ کرنے کی ذمہ داری رکھتی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق، لیفٹیننٹ جنرل سیف العالم کو وزارت خارجہ کا قلمدان سونپا گیا ہے، جبکہ لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان کو آرمی ٹریننگ اور ڈاکٹرائن کمانڈ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ میجر جنرل ضیاء الاحسن کی جگہ میجر جنرل ردوان الرحمان نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ سینٹر کے نئے ڈائریکٹر جنرل ہوں گےبنگلہ دیش پولیس نے بھی ہڑتال پر جانے کا اعلان کر دیا ہے عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے بھارت جانے کے بعد پولیس اہلکاروں میں سکیورٹی کے حوالے سے خدشات پیدا ہو گئے ہیںڈھاکا کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس کی عدم موجودگی دیکھنے کو مل رہی ہے اور طلباء سگنلز کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
اسے بھی پڑھیں حسینہ واجد کے 16 سالہ دور میں جماعت اسلامی نے کیا کیا ظلم برداشت کئے،تفصیلی رپورٹ
یہ احتجاج جولائی میں سرکاری نوکریوں کیلئے مختص کردہ کوٹے کو ختم کرنے کے مطالبے پر شروع ہوا تھا اور یہ تحریک اس وقت کامیاب ہوئی جب وزیراعظم نے اس پر عمل درآمد کیایہ کوٹہ نظام 1971 میں متعارف کروایا گیا تھا تاکہ فوجیوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا جا سکےشیخ حسینہ واجداپنی ہٹ دھرمی کے باعث وزیراعظم سے سابق وزیراعظم بن گئیں اشتعال انگیز تقریر ان کی کرسی کاپھندابنی شیخ حسینہ واجد نے اپنی تقریرمیں مظاہرین کو’’رضاکار‘‘کہاتھااوربنگلہ دیش کے لوگ اس لفظ کوغداری کےمترادف سمجھتے ہیں یہاں ایک اورذکرکرتاچلوکے بنگلہ دیشی اس لفظ کوغداری کے مترادف کیوں سمجھتے ہیں کیوں کہ 1971میں پاک فوج کیساتھ تعاون کرنےوالوں کورضاکارلقب دیاگیاتھاعرصہ پہلے شیخ مجیب نے جوجماعتی حکومت قائم کی بیٹی نے وہی غلطی دہرادی اورایک غلطی کے بعد پھردوسری غلطی دہرائی وہ یہ کہ حسینہ واجدنے یہ بھی کہاتھاکہ سڑکوں پرنکلنے والے طلبہ دہشت گردہیں اورانہیں کچل دیاجائے جوکہ طلبہ کوبہت ہی بری لگی یہ بات اوراسی دوران احتجاجی مظاہرے مزیدزورپکڑ گئے اورشیخ حسینہ کواپنی کرسی چھوڑناپڑی اورطلبہ نے ثابت کردیاکہ وہ اپناحق لیناجانتے ہیں حسینہ واجدکے بھارت فرارہونے کے بعد وزیر خارجہ سمیت 2 سابق وزرا بھی بھارت فرار ہورہے تھے کہ ایئرپورٹ پرانہیں بھی گرفتارکرلیاگیا۔ رہی بات سابق وزیراعظم کے مستقبل کی تو ان کی پریشانیاں ابھی ختم نہیں ہوئیں بلکہ ان میں مزیداضافہ ہوگیاہے بنگلادیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد طویل طلبہ تحریک کے نتیجے میں مستعفی ہوکر بھارت فرارہوئیں اس کے بعد ان کی اگلی منزل لندن تھی جہاں وہ ممکنہ طور پر سیاسی پناہ کی درخواست دیتیں یا پھر ان کا اگلا ممکنہ سفر فن لینڈتھا ابتداء میں یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ ملنے تک شیخ حسینہ واجد بھارت میں کسی محفوظ مقام پر رہیں گی اور انہیں جلد برطانوی ویزہ مل جائے گالیکن نئے برطانوی وزیراعظم نے ملکی پالیسی کے تحت برطانیہ پہنچ کر پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے نئی پالیسی کے مطابق سیاسی پناہ کے طلب گاروں کو پہلے کسی دوسرے ملک میں عارضی قیام کرنا ہوتا ہے جہاں ان کے چال چلن اور پناہ کے مقاصد کا جائزہ لیا جاتا ہے اور پھر سیاسی پناہ دی جاتی ہے اس پالیسی کی وجہ سے برطانیہ نے فی الحال حسینہ واجد کو پناہ دینے سے انکار کر دیا ہےاوریہ بھی دعویٰ کیاجارہاہےکہ امریکہ نے بھی شیخ حسینہ واجد کا ویزا منسوخ کر دیا ہے مودی حکومت نے شیخ حسینہ واجد کی سابق حکومت کے ساتھ دوستی کا احترام کرتے ہوئے انہیں کسی ملک میں سیاسی پناہ ملنے تک بھارت میں قیام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔