5اگست 2019بھارت کیلئے یوم حساب بن چکاہے
تحریر غلام مرتضیٰ
دل و دماغ پر سنگین اور تلخ یادوں کا بوجھ ڈالتی ہے جوآج بھی دل کوچیرکررکھ دیتی ہیں5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک متنازع اقدام اٹھاتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی یہ دن کشمیریوں کیلئے ایک سنگین موڑ ثابت ہوا کیونکہ بھارت کی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علاقے کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیایہ اقدام کشمیریوں پر ظلم و ستم کے ایک نئے دور کا آغاز تھا حالانکہ کشمیر میں ظلم اور استبداد کی تاریخ بہت پرانی ہے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی
جب سری نگر کی سنٹرل جیل کے باہر پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 17 کشمیری شہید ہو گئے اس سانحہ نے کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو مہمیز دی علامہ اقبال نے بھی اس تحریک کی حمایت کی تھی 14 اگست 1931 کو سیالکوٹ میں ایک جلسہ ہوا جس میں کشمیریوں کی حریت کی حمایت میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی اور یوم کشمیر کے طور پر منایا گیابھارت کی ماضی کی حکومتیں چاہے وہ کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے کشمیر کی متنازع حیثیت کو برقرار رکھا تھا
اگرچہ وہاں فوجی کارروائیاں اور ظلم و ستم جاری رہا لیکن 5 اگست 2019 کو نریندر مودی کی حکومت نے وزیر داخلہ امیت شاہ کی قیادت میں اس صورتحال کو تبدیل کر دیا بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کر دیا جس کے تحت کشمیر کو خاص حیثیت حاصل تھی اس تبدیلی کے نتیجے میں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ایک حصہ جموں و کشمیر اور دوسرا لداخ کے نام سے جانا گیااس فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کو معطل کر دیا
گیا اور علاقے میں اضافی فوج بھی بھیج دی گئی تھی 3 اگست کو بھارتی فوج نے بارامولا اور شوپیاں میں کارروائیاں کرتے ہوئے دو کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا اس کے بعد5 اگست کو بھارتی صدر نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کیلئے آرڈیننس پر دستخط کئے اور پارلیمنٹ نے اسے اکثریت کی بنیاد پر منظور کر لیا5 اگست سے پہلے ہی بھارتی حکومت نے دہشت گردی کے خطرے کی آڑ میں غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کی ہدایت کی اور علاقے میں اضافی فوج بھیج دی سیاحوں اور طلبا میں خوف و ہراس پھیل گیا اور وہ واپس جانے لگے بھارتی فوج نے کشمیریوں پر ریاستی تشدد بھی جاری رکھا جس کے نتیجے میں کئی کشمیری شہید ہوئے اور زخمی بھی ہوئے بی جے پی کے صدر اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیا سبھا میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کا بل پیش کیا اور کہا کہ صدر نے بل پر دستخط کر دئیے ہیں اس کے تحت کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام کرنے اور بھارتی قوانین کا نفاذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا لداخ کو وفاق کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا گیا اور وہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی یہ تبدیلی بھارت کے 1947 میں مہاراجا ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی تھی جس میں کشمیر کو خصوصی حیثیت دی گئی تھی 17 اکتوبر 1949 کو آرٹیکل 370 نافذ کیا گیا تھا اور بعد میں 1954 میں آرٹیکل 35 اے بھی شامل کیا گیا تھا
جس کے تحت کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق حاصل تھےاس کے نتیجے میں بھارتی حکومت نے کشمیری رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا احتجاج کے خوف سے بھارت نواز سیاسی رہنما محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو بھی نظر بند کر دیا گیا سوشل میڈیا پر’’ریڈ فار کشمیر‘‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ایک مہم شروع کی گئی تاکہ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا سکےسخت کرفیو اور فوج کی بھاری تعداد کے باوجود کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت کے اقدامات کے خلاف احتجاج کیا۔ 7 اگست کو لوک سبھا نے جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے بل کو منظور کر لیا جس میں 367 ووٹ حق میں اور 67 ووٹ مخالفت میں پڑے۔ 8 اگست کو 500 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا اور کئی افراد زخمی ہوئے، حریت رہنماء سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق پہلے ہی نظر بند یا جیل میں قید تھے۔بھارت نے ریاست جموں و کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے مگر اس بندربانٹ کے باوجود کشمیری عوام بھارتی جابرانہ اور فاشسٹ تسلط کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں ہر روز سری نگر اور اس کے اطراف میں نوجوان کشمیریوں کی لاشیں گرتی ہیں جو نہ تو گھس بیٹھئے ہیں اور نہ ہی کسی بیرونی ریاست کی حمایت رکھتے ہیں یہ نوجوان برہان وانی کے جذبے سے سرشار ہیں جو کشمیر کا حقیقی بیٹا تھا اور جس نے آزادی کا سبق سید علی گیلانی، سید شبیر شاہ، اور یاسین ملک جیسے جانبازوں سے سیکھا تھا شہید وانی کے خون کے ہر قطرے سے یہی صدا بلند ہوتی ہے کہ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔کشمیر کے چناروں سے ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ہے، ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘۔ بھارت نے کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس کا ڈھونگ رچا، مگر اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ کشمیری لیڈرز بھی نئی دہلی کے فریب میں پھنسنے پر تیار نہیں ہیں
بھارت نے اس کانفرنس کے ذریعے کشمیر میں انتخابات کرانے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہ بھی ناکام ہو گیا محبوبہ مفتی جیسے بھارت نواز لیڈر نے مودی کو مشورہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان سے رابطہ کرے لیکن بھارت نے پاکستان کا نام سننے پر بھی آمادگی نہیں ظاہر کی۔ پانچ اگست کا اقدام بھارت کے لیے کشمیر کی بند گلی میں پھنسنے کا سبب بنا ہے، اور یہ یوم سیاہ بھارت کے لیے بلاشبہ یوم حساب بن چکا ہے۔