’’کلیکرز‘‘ پر یورپ اور امریکہ میں کیوں پابندی ہے؟
تحریر غلام مرتضیٰ
کلیکرز نامی کھلونا جسے "کلک کلکس” یا "نوکرز” بھی کہا جاتا ہے یورپ اور امریکہ میں 1960 کی دہائی کے آخر اور 1970 کی دہائی کے اوائل میں اپنے عروج پر تھا ۔ تیاری کے انتہائی سخت مراحل سے گزرنے کے بعد اس کھلونے کو بیچنے کی اجازت دی جاتی تھی کیونکہ شروعات میں اس کھلونے کی بالز کو تیار کرنے میں شیشے کے میٹریل کا استعمال کیا جاتا تھا ۔ یہ کھلونا دو گیندوں پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک تار کے ذریعے آپس میں جڑی ہوتی ہیں۔ جب انہیں جھولا جاتا ہے تو گیندوں کے آپس میں ٹکرانے سے ایک خاص قسم کی ’’کلک‘‘ کی آواز پیدا ہوتی ہے۔کلیکرز کی بالز کیونکہ شیشے سے بنی ہوتی تھیں اس لئے اکثر یہ گیندیں آپس میں ٹکرانے کے باعث کبھی ٹوٹ جاتیں تو بچوں کو جسمانی طور پر کافی نقصان ہوتا تھا۔ بعد میں انہیں بالز کو پلاسٹک کی بالز میں تبدیل کر دیا گیا۔ جب بچوں کے زخمی ہونے کے واقعات معمول بن گئے اور بچے لڑائی کے دوران بھی اس کا استعمال کرتے تو اس کھلونے کی فروخت پر نہ صرف پابندی عائد کر دی گئی بلکہ پولیس نگرانی کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ جہاں بھی اس کھلونے کا استعمال دیکھیں تو متعلقہ بچے یا شخص کو گرفتار کر لیا جائے۔
بچے گیندوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر کھیلنے کی کوشش میں اپنے چہرے یا دوسروں کے چہرے پر مار دیتے تھے جس سے ناک سے خون بہنا اور مختلف دیگر چوٹیں آتی تھیں۔ علاوہ ازیں، پلاسٹک کی گیندیں کبھی کبھار ٹوٹ جاتی تھیں اگر وہ زیادہ زور سے ٹکراتی تھیں، جس سے تیز دھار کنارے بن جاتے تھے جو کہ چوٹ کا باعث بن سکتے تھے۔
چوٹوں اور حفاظتی مسائل کی وسیع پیمانے پر رپورٹوں نے صارفین کی حفاظتی تنظیموں اور حکومتی اداروں کو کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ 1970 کی دہائی کے وسط تک، بہت سے ممالک، بشمول امریکہ اور کینیڈا، میں کلِکرز کو مارکیٹ سے ہٹا دیا گیا۔ انہیں ہٹانے کا فیصلہ بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ضرورت کی بنا پر کیا گیا۔
آج کل پاکستان میں بھی کلیکرز کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ مختلف بازاروں اور کھلونوں کی دکانوں پر کلیکرز کی دستیابی نے انہیں بچوں میں ایک پسندیدہ کھلونا بنا دیا ہے۔ یہ کھلونا پاکستان میں اپنے تفریحی اور چیلنجنگ عناصر کی وجہ سے خاصا مقبول ہو گیا ہے۔ کلیکرز کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث پاکستان میں اس کی مقبولیت زبان زد عام ہے۔ بچے اور نوجوان ان گیندوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھولانے اور مختلف جھولانے کی تکنیکوں کو آزمانے کے لئے پسند کرتے ہیں۔ بازاروں میں کلیکرز کی متنوع اقسام کی دستیابی نے انہیں مزید مقبول بنایا ہے اور یہ کھلونا تیزی سے بچوں کے درمیان عام ہوتا جا رہا ہے۔بچوں کو یہ سکھانا ضروری ہے کہ گیندوں کو ایک دوسرے سے ٹکرانے کی کوشش میں چہرے پر نہ ماریں اور محتاط طریقے سے کھیلیں تاکہ چوٹوں سے بچا جا سکے۔والدین اور نگراں افراد کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کلِکرز کا استعمال محفوظ طریقے سے ہو تاکہ بچے خوشی کے ساتھ ساتھ محفوظ بھی رہ سکیں۔
کلِکرز بہت سے لوگوں کے لئے 1960 کی دہائی اور 1970 کی دہائی کے اوائل کی یادگار ہیں۔ اگرچہ یہ ایک مقبول اور تفریحی کھلونا تھا، مگر اس کے ساتھ منسلک حفاظتی خطرات اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں کہ بچوں کی مصنوعات کی تیاری میں سخت حفاظتی معیارات کی ضرورت ہے۔ کلیکرز کی ترقی اور زوال ایک یاد دہانی ہے کہ بچوں کی حفاظت ہمیشہ اولین ترجیح ہونی چاہیے جب کھلونوں کے ڈیزائن اور مارکیٹنگ کی بات ہو۔ آج، کھلونا بنانے والی کمپنیاں نئے اور محفوظ مصنوعات تیار کر رہی ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ کلِکرز کی تیاری میں کی گئیں غلطیاں دوبارہ نہ دہرائی جائیں۔
بیٹر کے زوردار شارٹ نےایمپائر کے منہ کا حلیہ ہی بگاڑ دیا جس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل…
پاکستان تحریک انصاف کا 24 نومبر کو ہونے والا احتجاج رکوانے کے لیے پس پردہ ملاقاتیں جاری ہیں۔سینیئر صحافی انصار…
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور کر لی گئی۔آج اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس…
معروف خاتون نجومی باباوانگا نے ۲۰۲۵ سے متعلق خطرناک پیشگوئیاں کر دیں۔۱۹۱۱ میں پیدا ہونے والی بابا وانگا نے مرنے…
علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)…
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) حفیظ الرحمان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے واضح…