گزرے زمانے میں پاکستان کا بنیادی مسئلہ
بقلم: کاشف شہزاد
وطنِ عزیز میں ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ اس میں نئی ملیں اور نئے کارخانے لگ رہے تھے، نئے تجارتی مراکز قائم ہو رہے تھے، کئی قسم کے بینک اپنی برانچوں کی تعداد شہروں شہر بڑھا رہے تھے، بہت سی صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ فیکٹریوں اور مِلوں میں ہر قسم کے کاریگروں جیسے مینجر، سپلائرز، کمیشن ایجنٹ، پلمبر اور الیکٹریشن کی ہر وقت ضرورت رہتی تھی، ناصرف انکی بلکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں جن کی تعلیم بے اے یا ڈپلومہ ہولڈرز تھی انکی بھی ہمہ وقت کہیں نہ کہیں مانگ رہتی تھی۔
اس دور میں ہر کارخانے کے باہر یہ بورڈ آویزاں رہتا تھا کہ مندرجہ ذیل آسامیاں خالی ہیں۔ یہ دور سنہ سنتالیس سے پچانویں تک خوب چلا۔ حتیٰ کہ ستر کی دہائی کی حکومت نے انتہائی احسن اقدام اُٹھائے اور پاکستان کی بے شمار عوام کو عرب ممالک روزگار کے لئے بھیجنا شروع کر دیا جہاں لاکھوں افراد اپنے خاندانوں کے لئے بہترین آمدنی حاصل کرنے لگے جس سے پاکستان کے زرِ مبادلہ ذخائر بھی اچھے خاصے پروان چڑھے۔ مگر آج دیکھ لیجئے پاکستان کی حالت کیسی ڈگرگوں ہو چکی ہے, آج گزرے وقت سے اُلٹ حالات نظر آ رہے ہیں، جہاں سے لوگوں کو روزگار میسر آتا تھا اُن کارخانوں، مِلوں، فیکٹریوں اور وئیر ہاوّسز کو تالے لگنے شروع ہو چکے ہیں۔ (اس کی مثال ابھی کچھ دن پہلے ہی سوشل میڈیا پر ایک وائرل پوسٹ ہے جہاں لوگوں سے پیشگی کام سے معذرت لی جا رہی تھی کہ ملکی معیشت کے پیشِ نظر فیکٹری کے حالات اسقدر سازگار نہیں کہ وہ آپ لوگوں کے اخراجات برداشت کر سکے اس لئے اگلے ماہ سے فیکٹری آپ لوگوں کی تنخواہوں دینے سے قاصر رہے گی)۔
جو کارخانے یا مِلیں کبھی تین تین شفٹیں چلا کر آپنا آرڈر تیار کرواتی تھی حالات ایسے آ گئے ہیں کہ وہ ان شفٹوں کو کم کر کے صرف ایک شفٹ پر لے آئی ہیں تاکہ اخراجات کا بوجھ صرف کم ہو سکے۔ پاکستان میں کمائی کا زمانہ اب کہیں نظر نہیں آ رہا جہاں جس قدر آمدن ہے وہاں اخراجات کا سمندر اس سے دوگنا گہرا آمدنی کو ڈوبونے کے لئے آنے سے پہلے تیار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اور ہمارا ملک دن بدن ترقی کی راہ ہر چلنے سے رُکا ہوا ہے۔
قارئین آپ لوگوں کو شائد اس بات کا علم نہ ہو کہ مغربی ممالک کی ترقی کا راز کیا ہے؟ مغربی ممالک اس لئے ترقی یافتہ ہیں کہ انہوں نے دیہی علاقوں کو خوب ترقی دی اسی لئے وہاں کے دیہاتی لوگوں نے شہروں کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ لوگ صرف اپنی زمینوں کو بروئے کار لا کر اپنی آمدنی میں کئی گنا اضافہ کر رہے ہیں۔ مغربی لوگ اپنی زمینوں پر جو زیادہ تر کام کرتے ہیں اُن میں باغ بانی، فارمنگ، جانور پالنا اور ڈیری فارمنگ سرفہرست ہیں۔ جبکہ ہمارے وطنِ عزیز میں بے شمار زمینوں پر نام نہاد غیر آباد قسم کی سوسائٹیاں بنا کر انکے گرد احاطے بنا دئیے گئے، جس سے ان زمینوں پر کاشتکاری کرنی ممکن نہیں رہی، اسکے علاوہ ہمارے دیہاتی لوگ آرام و آسائش کے لئے اپنی زمینوں کو کاشت کرنے کی بجائے انہیں بیچ کر شہروں کا رُخ کرتے جا رہے ہیں جس وجہ سے رہائشی سہولیات دن بدن آسمان کو چھوتی جا رہی ہیں۔ شہروں میں آبادی کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہاں روز گار کے مواقع بھی اس رفتار سے کم ہو رہے ہیں جس وجہ سے ہر دوسرا بندہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہے۔
پاکستان کے مسائل تو بہت سے ہیں، دن بدن کسی نا کسی پر اپنی رائے ضرور دیتا ہوں مگر بیروزگاری میرے ملک کا ایسا مسئلہ ہے جسکا حل جتنی جلدی ہو سکے حکمرانوں کو ڈھونڈ لینا چاہیے۔ اس کے لئے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہیے کہ عوام بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک بآسانی برسرِ روزگار حاصل کر سکے۔ کیونکہ اگر عوام الناس خوشحال ہوگی تو ہی ملکی ترقی کی رفتار میں تیزی آ سکتی ہے بصورت دیگر حالات جوں کہ توں ہی نظر آئیں گے۔