آپریشن ’’عزم استحکام ‘‘، اوورسیز پاکستانیوں کو دھمکیاں اور پابندی
تحریر: محمد اورنگزیب خان
اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہا ہے۔ ایک طرف بدترین معاشی بحران ہے تو دوسری طرف سکیورٹی کے ایشوز نے سلامتی کے لئے خطرات پیدا کررکھے ہیں۔ معاشی بحران دن بدن گہرا ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دینے کے عوض مسلسل ایسی شرائط منوارہا ہے جس سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 فیصد ملکی آبادی خط غربت کی لکیر سے نیچے آچکی ہے۔ لوگوں کے لئے بجلی کا بل ادا کرنا اور پھر اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جس دن یہ پھٹا تو اس کا لاوا اس ہنستے بستے چمن کو سیاہی مائل کر دے گا۔ بجلی، گیس، پانی کا بل ادا کرنے کے بعد کسی غریب آدمی کے لئے مہنگا ترین پٹرول اپنی موٹر سائیکل کی ٹینکی میں بھروانا ناممکن ہو چکا ہے۔ لوگ ذہنی مریض بن کررہ گئے ہیں۔ دوسری طرف سکیورٹی کے مسائل اس قدر خطرناک ہو چکے ہیں کہ ہماری بہادر مسلح افواج روزانہ کی بنیاد پر مادر وطن کے لئے جانوں کے نذرانے پیش کررہی ہیں۔ جب بھی کسی نوجوان خوبرو لیفٹیننٹ کپتان یا جوان کو شہید ہوتے دیکھتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ نہ جانے ان کے گھر والوں پر کیا گزرتی ہو گی ہمیں اپنے شہداء پر فخر ہے ۔ ہمیں اپنی نڈر افواج پر فخر ہے۔ ہماری افواج ملک کے جغرافیہ کی محافظ ہے، ہم جو عزت سے سو رہے ہیں تو اس کے پیچھے افواج پاکستان کے جوانوں کی قربانیاں ہیں۔ سوال یہ ہے یہ دہشت گردی کا جن بوتل میں بند کیوں نہیں ہورہا؟ کبھی آپریشن ضرب عضب، کبھی آپریشن ردالفساد اور کبھی عزم استحکام آخر یہ جنگ ہم پر کس نے مسلط کر دی اور ہم اس کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کیوں ہیں؟ یہ سوچنا منتخب حکومت اور پارلیمنٹ کا کام تھا مگر افسوس ہمارے پارلیمنٹ کی ترجیحات ملک کے معروضی مسائل سے یکسر مختلف ہیں۔
اس وقت پارلیمنٹ کے اندر معاشی بحران کے حل اور سکیورٹی مسائل سے نمٹنے کے لئے مباحثہ ہونا چاہیے تھا اور قوم کو یکسو کرنا چاہیے تھا مگر یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہماری پارلیمنٹ کی ساری توجہ سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ہے۔ تحریک انصاف پر پابندی کا اعلان سن کر ہر محب وطن شہری پریشان ہے۔ یہاں تک کہ اتحادی حکومت کے اندر بھی اس فیصلے کے اعلان پر تشویش ہے۔ آخر دکھتے ہوئے مسائل کو ایک طرف رکھ کر سیاسی انتقام کی روش اختیار کیوں کی جارہی ہے۔ ؟حکومت ایک ایسا گڑھا کھودنے پر بضد کیوں ہے جس میں وہ خود بھی گر سکتی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری خرم نواز گنڈاپور کاایک تفصیلی بیان نظر سے گزرا۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ آتش انتقام کی بجائے لوگوں کو اکٹھا کریں۔ اتحاد کی طاقت سے ہی ہم بحرانوں سے نکل سکتے ہیں۔
خرم نواز گنڈاپور نے بہت سنجیدہ بات کی ہے کہ سیاسی جماعتوں سے سیاسی عمل کے ذریعے ہی نمٹاجا سکتا ہے۔ ماضی میں سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے نتیجے میں انتشار بڑھا۔ تحریک انصاف پر پابندی کی سوچ کو بدلا جائے۔ پابندی کے نتیجے میں عدم استحکام بڑھے گا اور پھر کمزور حکومت کے لئے معاملات سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا۔ پابندی کے فیصلے سے خود حکمرانوں کی صفوں کے اندر اتفاق نہیں ہے۔ دانشور حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے اس وقت خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان میں ریاست مخالف عناصر بہت بڑا چیلنج بنے ہوئے ہیں،افواج پاکستان کے جوان افسر روزانہ کی بنیاد پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، دہشت گردوں نے غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے، اس وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے فتنے کا سر کچلنے کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرے،سب کو ساتھ ملائے تاکہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنی افواج کے پیچھے کھڑی ہو، اس سے پہلے جب آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا تھا تو تمام سیاسی قوتوں نے رنجشیں ختم کر کے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا تھا اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان مرتب کیاتھا تب جا کر آپریشن ضرب عضب کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا آپریشن عزم استحکام کی کامیابی کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنا ہوگا۔
خرم نواز گنڈاپور نے بتایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی مشورہ دیا تھا کہ غلطیاں سب سے ہوئیں لہٰذا سب ایک دوسرے کو معاف کریں اور ملک اور عوام کے لیے مل بیٹھیں۔ خرم نواز گنڈاپور نے درست کہا کہ تاریخ گواہ ہے جب بھی اکثریتی جماعت کو طاقت کے زور پر اقلیتی جماعت بنایا گیا ریاست کمزور ہوئی یہ تجربہ 1970 میں بھی ہوا اور بعدازاں بھی بار بار یہ ناکام تجربات دہرائے گئے اور نتیجتاً آج ملک ترقی کرنے کی بجائے پانی، بجلی گیس، آٹا روٹی چینی کے چکر میں پھنسا ہوا ہے۔ خرم نواز گنڈاپور نے ایک انتہائی اہم ایشو کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ بدترین معاشی بحران میں پاکستان کو آخری تعاون اوور سیز پاکستانیوں کا میسر ہے ۔ آئی ایم ایف چند ارب ڈالر دینے کے عوض 25 کروڑ عوام کی خوشیاں گروی رکھوا لیتا ہے مگر اوورسیز پاکستانی سال بھر اربوں ڈالر ترسیلات زر بھجوا کر پاکستان کو پائوں پر کھڑا رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں دھمکیاں دینے کی بجائے ان کے پاسپورٹ ضبط کرنے کی بجائے، ان کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کی بجائے ان کا شکریہ ادا کیا جائے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو دھمکیاں دینے والے ملک اور قوم کی کوئی خدمت نہیں کررہے بلکہ مزید بحرانوں کو گہرا کررہے ہیں۔