انسانیت کی موت!
تحریر: صلاح الدین حیدر
آج میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک ایسے موضوع پر قلم اُٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں، جہاں زندگی بچانے والی ، خود معاشرے کے ظلم وستم کا شکار ہو کر موت کی نیند سلادی گئی۔ جی ہاں یہ کوئی فرضی کہانی نہیں ، نہ ہی کسی افسانے یا ناول کا پلاٹ ہے۔ یہ جیتی جاگتی ہمارے اپنے ہاتھوں بنائی ہوئی تصویر ہے، جسے دیکھ کر خود بخو د دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے، دیدہ چشم تر ہو جاتا ہے۔ آپ کی نذر پیش کیے دیتا ہوں، اگر آپ اپنے جذبات پر قابو کرسکیں تو ضرور بتائیے گا۔ ایک جوان خاتون، انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار، اس کے ساتھ کیا بیتی ، آپ بھی سینے۔ ڈاکٹر ارم ظہیر کے ساتھ کس قدر درندگی کا سلوک کیا گیا ، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیا ہم سب کے ضمیر واقعی مُردہ ہو چکے ہیں؟ کیا ہمارے لیے پیسہ ہی مقصد حیات رہ گیا ہے۔ انسانیت کا گلا گھونٹ دینے میں ہمیں لطف آنے لگا ہے۔ ایک ایسی خاتون جس نے ڈاکٹری کا امتحان بڑی محنت اور لگن سے پاس کیا اور پھر ہوا کیا ، وہ بے چاری ڈاکٹر جس کے دل میں عزت و آبرو سے آگے بڑھنے کی خواہش تھی، جہاں وہ انسانیت کی خدمت بھر پور طریقے سے کر سکے، کاش اُس کی ہمت کی داد دی جاتی۔ مگر جہاں پیسہ ہی سب کچھ ہو، وہاں اچھے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟ مالک کائنات جس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا کر کے ہم پر احسان عظیم کیا اور قرآن، حدیث اور درود شریف جیسی نعمتوں سے سرفراز کیا، اُس کا کچھ تو حق ادا کر سکیں۔ دعا ہے کہ ہمارا ضمیر اور دین کا جذبہ دلوں میں دمِ آخر تک زندہ رہے، ایک مسلمان کی موت نصیب ہو، (آمین)۔
ڈاکٹر ارم نے کم عمری میں ہی MD ڈاکٹر آف میڈیسن) جیسی اعلیٰ ڈگری حاصل کرلی۔ شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں، وہ بھی آپریشن کے ذریعے۔ تمام تر تکلیفات کو بھول کر بس وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے ، اس میں بجتی رہی۔ وہ بذات خود انسانیت کا جیتا جاگتا نمونہ تھی۔ ہنس مکھ، دل آویز مسکراہٹ ہر وقت اُس کے چہرے کو روشن رکھتی تھی۔ مریضوں کے ساتھ اُس کا رویہ شفقت وپیار سے لبریز تھا۔ ایسے انسان کی تو ہر شخص جو ذرا سا بھی ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہو ) کو ہمت افزائی کرنا چاہیے، لیکن یہاں تو کہانی ہی دوسری تھی ۔ ارم نے نا صرف MD کی ڈگری حاصل کر لی تھی بلکہ کالج کے فزیشنز اینڈ سرجنز سے مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی جدو جہد میں پارٹ ون بھی کلیئر کر لیا تھا۔ پارٹ ٹو کی تیاری میں مصروف تھی تاکہ FCPS جو ماہرین کی ڈگری کہلاتی ہے ) جلد سے جلد حاصل کر کے خوشی محسوس کر سکے، جن صاحب نے مجھے یہ اطلاع حیدر آباد سے دی، اُن کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ارم شاید پیشے کی اعلیٰ بلندیوں کو چھولیتی ، اُس جیسے ڈاکٹر پاکستان کے کسی بھی پبلک ہاسپٹل میں کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ ہمارے یہاں ڈاکٹر ز تو بے شمار ہیں لیکن افسوس ڈاکٹری نہیں ہے۔ تعلیم ہے تربیت نہیں ہے۔
یہی چیز ہمارے ڈاکٹروں اور تہذیب یافتہ دنیا کے ڈاکٹروں میں فرق سمجھانے میں مدد دیتی ہے۔ میں نے خود اپنا علاج پاکستان کے بیشتر ہسپتالوں، لندن اور امریکا کے نامور ہسپتالوں میں کروایا ہے۔ مجھے آج سے قریباً 30/28 سال پہلے دل کی دھڑکن بڑھ جانے کا عارضہ ہو گیا تھا، گھبراہٹ نے زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ مجھے پاکستانی ڈاکٹروں اور دُنیا کے دوسرے ڈاکٹروں کے علاج معالجے کے طریقہ کار میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔ بس ایک خیال بار بار ذہن کو مرتعش رکھتا تھا کہ ہمارے ڈاکٹروں نے دومنٹ آپ کی بات سنی اور فوری طور پر نسخہ لکھ دیا۔ لندن اور امریکا میں ایسا نہیں ہوتا، آپ ڈاکٹر سے نصف کیا دو گھنٹے بات کریں، وہ غور سے آپ کی بات سنے گا اور پھر بعد میں علاج یا دوا تجویز کرے گا، بلکہ لندن کے ہارلے اسٹریٹ میں ڈاکٹر سلک نے میرا حال پوچھا کہ اپنی پوری زندگی، خاندان کے بارے میں بتاؤ ، ایک ٹیپ ریکارڈر اُس نے آن کر دیا تھا اور قلم اور پیڈ پر نوٹ لینے کو تیار تھا۔ میں نے جب صرف اتنا کہا کہ ڈاکٹر میں آپ کو مختصراً اپنے بارے میں بتاتا ہوں تو اُس نے پلیں اوپر اُٹھا ئیں اور حیرت سے کہنے لگا کہ مختصر مگر کیوں، جب تک میں تمہاری زندگی کی پوری طرح معلومات حاصل نہیں کرلوں گا، میں علاج کیسے کروں گا۔
ڈاکٹر ارم بھی شاید ایسے ہی جذبے سے سرشار تھی۔ اُس نے سندھ پبلک سروس کمیشن سے 2018 میں امتحان پاس کیا اور حیدر آباد کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں 18 گریڈ میں لگادی گئی ۔ مگر شومئی قسمت تو دیکھئے کہ اُس کی پوسٹنگ کے لیے رشوت مانگی گئی۔ اُس کا ڈومیسائل حیدر آباد کا تھا لیکن اُسے میر پور خاص میں پوسٹ کر دیا گیا۔ حیدر آباد میں پوسٹنگ کے لیے بھاری رقم طلب کی گئی۔ ایک ڈاکٹر کے ساتھ ایسا سلوک تو آپ خود سوچیں کہ بے چارے غریب مریضوں کے ساتھ کیا کچھ ہوتا ہوگا۔ ارم نے میر پور خاص میں ڈسٹرکٹ فزیشن کی حیثیت سے کام کرنے سے انکار کر دیا اور گریڈ 17 میں ہی حیدر آباد میں کام کرنے پر قانع رہی۔ تیسری دفعہ حاملہ ہونے پر اُسے میڈیکل سرٹیفکیٹ دے دیا۔ گیا۔ ظلم پر ظلم ۔ میڈیکل سرٹیفکیٹ کے لیے بھی اُسے سروسز ہاسپٹل حیدر آباد بلایا گیا۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارا نظام انصاف بھی اب تک صحیح نہیں ہو سکا۔ فریاد کریں بھی تو کس سے۔ بے چاری تڑپ تڑپ کر وہاں مرگئی۔ ڈاکٹر ارم نہیں مری تھی ، انسانیت کی موت ہو چکی تھی ، انسانیت کا گلا گھونٹ کر ایک ایسی ڈاکٹر، جو انسانی ہمدردی کے فرض اولین سے سرشار تھی، کو موت کی نیند سلادیا گیا۔ اب بتائیں ہم حالات کا رونا نہیں روئیں تو کیا کریں۔