عمران خان کی واٹس ایپ ویڈیو کال
کتنے منٹ جج صاحب نے عمران خان سے وڈیو کال پر بات کی ہے؟
3مرتبہ کال disconnect ہونے کی کیا وجہ تھی ؟ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اور مقامی قیادت کہاں غائب ؟
سماعت کا مکمل احوال
عمران خان کی 12مقدمات میں جسمانی ریمانڈ کا کیس تھا اور یہ بھی سب کو پتہ تھا کہ جسمانی ریمانڈ میں ملزم کی پیشی لازمی ہوتی ہے اگر پیش نہ ہو تو وڈیو لنک کے ذریعے سماعت ہوتی ہے حیران کن طور پر کمرہ عدالت میں ساڑھے تین بجے کے قریب کاروائی کا آغاز ہوا تو مرکزی اور صوبائی ایک بھی رہنما کمرہ عدالت میں موجود نہ تھا کوئی پارٹی رہنما ، کوئی ایم این اے ، ایم پی اے ، اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی لائیرز فورم کا کوئی رکن کوئی بھی کمرہ عدالت میں نہیں تھا ایک شحض جس کا نام اظہر صدیق اور ایک عثمان ریاض یہ دونوں وکیل آج نہ ہوتے تو شاید یہ کاروائی 20منٹ سے زیادہ نہ چلتی ،، خیر اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کیا اور شروع ہی اس بات سے کہاکہ عمران خان کو عدالت میں پیش کریں سرکاری وکیل نے کہاکہ سکیورٹی خدشات ہیں پیش نہیں کر سکتے
وڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگوائیں اب معزز جج نے وفقہ لیا اور واپس آئے اور ریڈر سے کہا وڈیو کال ملائیں اوپن عدالت میں وڈیو کال کی تو عمران خان نے خود کال Receive 📲 کی عمران خان نے سلام کیا تو معزز جج نے سلام کا جواب دیا پھر جج نے 9مئی کے 13کیسز کی جسمانی ریمانڈ کی درخواست سے متعلق عمران خان کو بتایا پھر عمران خان نے کہاکہ مین کچھ کہہ سکتا ہوں ،،، پھر ساتھ ہی signal problem کے باعث کال disconnect ہوگئی جج کے حکم پر دوبارہ کال ملائی تو جج نے کہاکہ خان صاحب آپ کچھ کہہ رہے تھے تو عمران خان نے کہاکہ یہ کہتے ہیں کہ 9مئی کے واقعات کی معافی مانگو ، معافی مجھے نہیں ان کو مانگنی ہوگی پھر انہوں نے ایک شخصیت کا نام لیکر باتیں کیں عمران خان نے کہا جج صاحب میری باتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں ساتھ ہی دوبارہ کال disconnect ہوئی تو دوبارہ کال ملائی گئی
عمران خان نے کہاکہ یہ انتقامی کاروائی کا نشانہ بنا رہے ہیں 9مئی کو پرامن احتجاج کا کہا تھا میرا 9مئی سے کیا تعلق ہے تیسری مرتبہ جب کال disconnect ہوئی تو جج صاحب نے کہا اب ٹھہر جاؤ، سگنل کا ایشو ہے ابھی یہ کہنا ہی تھا کہ پھر اڈیالہ سے خود ہی کال آگئی اور وہ کال عمران خان کو ملا کر دی گئی تھی پھر عدالت نے صحت سے متعلق پوچھا تو عمران خان نے کہا کہ الحمد للّٰہ وہ بلکہ ٹھیک ہیں جج صاحب نے کہاکہ آپ کی باتوں کو ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے ۔۔ پھر جج صاحب نے عمران خان کو کہاکہ کمرہ عدالت میں اظہر صدیق صاحب آپ کی طرف سے پیش ہورہے ہیں کیا آپ کوئی اعتراض تو نہیں ؟
عمران خان نے بلند آواز میں کہاکہ مجھے اظہر صدیق پر اعتماد ہے کوئی اعتراض نہیں پھر اظہر صدیق نے جج صاحب سے پوچھا کہ عمران خان کیسے لگ رہے ہیں تو جج صاحب نے کہاکہ ماشاءاللہ عمران خان ہشاش بشاش تھے اور گفتگو کے دوران وہ کھڑے بھی ہوئے اور بیٹھے بھی جس پر وکلا نے شکریہ ادا کیا اور کال بند ہوگئی پھر اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کردیا اور سب سے پہلے واٹس ایپ کے ذریعہ عمران خان کی حاضری کو چیلنج کردیا اور یہاں سے اصل کہانی شروع تو جج صاحب نے بھی سرکاری وکیل سے کہا کہ بغیر نوٹفکیشن کہ ایسی کاروائی نہیں ہوسکتی جس پر پھر رات گئے حکومت کی جانب سے سکیورٹی خدشات کو بنیاد بنا کر نوٹفکیشن جاری کیا گیا اور عدالت نے ریمانڈ دیدیا لیکن 8گھنٹے سماعت کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ چینلز پر نشر ہوئی اس کے باوجود کوئی مقامی قیادت ، رہنما اور ایم پی ایز عدالت کے اندر یا باہر نہیں پہنچے البتہ ایڈووکیٹ ماریہ بلوچ آخر تک موجود رہیں