سانحہ کربلا ۔۔۔۔اسلامی تاریخ کا دلگداز باب
تحریر: غلام مرتضیٰ
نواسہ رسول ﷺ، جگر گوشہ بتول،پسر علی شہید کربلا حضرت امام حسینؑ نے آغوشِ رسول ﷺ میں پرورش پائی۔ آپ نے اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے انقلابی پیغام کو گھر سے جاری ہوتے دیکھا تھا۔ جب خلفائے راشدین کا عہد ختم ہوا تو اسلامی قوانین اور حدود کو تبدیل کیا جانے لگا۔ ان حالات میں آپ جیسی عظیم ہستی کا یہ فرض اولین تھا کہ آپ فسق و فجور کے خلاف کلمہ حق بلند کریں ۔یزیدیت کے خلاف امام عالی مقام نے 3 ذی الحجہ 60 ہجری کوشہر مکہ سے سفر کا آغاز کیا۔ اس سفر میں 82 افراد کا قافلہ آپ ؑکے ساتھ تھا۔
کربلا عراق کے جنوب میں واقع ایک شہر ہے جو اسلامی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہ شہر حضرت امام حسین ؑاور ان کے ساتھیوں کی قربانی کی داستان کا مرکز ہے جو 10 محرم 61 ہجری (680 عیسوی) کو میدان کربلا میں پیش آئی۔ واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا دلگداز باب ہے۔
کربلا کا سانحہ نہ صرف تاریخ اسلام کا ایک اہم باب ہے بلکہ یہ واقعہ پوری دنیا کی تاریخ میں بھی ایک نادر اور عجیب و غریب مقام رکھتا ہے۔ یہ وہ واحد واقعہ ہے جس نے دنیا کی ہر چیز کو متاثر کیا۔ آسمان، زمین، سورج اور چاند سبھی اس سے متاثر ہوئے، یہاں تک کہ خداوند عالم بھی متاثر ہوا ۔
یہ ایک غمگین اور الم انگیز واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا۔ اس واقعہ کا پس منظر رسول اللہ ﷺ اور ان کی اولاد سے دشمنی پر مبنی تھا۔ بدر، احد، خندق اور خیبر میں قتل ہونے والے کفار کی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا اور اپنے آباء و اجداد کا بدلہ لینے کے جذبات دل میں پروان چڑھائے۔ یہ جذبات عہد رسول ﷺ سے ہی دلوں میں موجزن تھے، لیکن عدم اقتدار کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے بعد جب 38 ہجری میں حضرت علیؓ برسر اقتدار آئے تو ان لوگوں کو مقابلہ کا موقع ملا جو عنان حکومت کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھے۔ بالآخر وہ وقت آیا کہ یزید ابن معاویہ خلیفہ بن گیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت امام حسنؓ شہید کیے جا چکے تھے اور واقعہ کربلا پیش آیا۔
کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا ایک بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کی خبر پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دے دی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس مقام کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوں گے تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔
کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جب امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ اسلامی تاریخ میں کوئی اور واقعہ اس قدر اور اس طرح متاثر کن نہیں ہوا جیسے سانحہ کربلا۔آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی تھی۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پوشیدہ تھی، جس نے اسلامی معاشرت اور حکومت کو ایک منفرد اور مثالی شکل دی۔
نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کیا گیا اور ان کے جسم اور سر کی بے حرمتی کی گئی، وہ اخلاقی لحاظ سے تاریخ اسلام کی اولین اور بدترین مثال ہے۔
یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مفادات ملی، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں تو انسان درندگی کی بدترین مثالیں پیش کر سکتا ہے۔ اس کی مثالیں ہمیں تاریخ میں جابجا ملتی ہیں اور یورپ کی تاریخ بھی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
امام عالی مقام نے جس ثابت قدمی اور صبر سے کربلا میں مصائب و مشکلات کا سامنا کیا وہ حریت، جرات، صبر، اور استقلال کی نہ ختم ہونے والی داستان ہے۔ ان باطل قوتوں کے سامنے سر نہ جھکا کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی، حریت فکر، اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کیا۔
اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسانوں کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی، سوچنے کی آزادی، انسان دوستی، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت انہی اصولوں پر قائم رہی۔ لیکن یزید کی حکومت ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم ہوئی۔
امام حسین نے ان ہی اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں قدم رکھا۔ میدان کربلا میں حق کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ جو کچھ گزری، وہ جبر و استبداد اور بے رحمی کی بدترین مثال ہے۔ امام حسین کی قربانی نے ان اسلامی اصولوں کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا اور ان کی حفاظت کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔