دنیا بھر میں پروٹوکول کا تصور کسی بھی محفل یا دفتر میں اہمیت رکھتا ہے، لیکن ہمارے معاشرتی نظام میں پروٹوکول کلچر ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہ ایک ایسا بے جا اور غیر ضروری رسم و رواج ہے جو نہ صرف اداروں میں بگاڑ کا سبب بنتا ہے، بلکہ اس سے افراد کے درمیان فرق بھی بڑھتا ہے۔ پروٹوکول کلچر کو ایک طرح سے ریاست، حکومت، ادارے یا اعلیٰ عہدے والوں کے درمیان غیر ضروری فرق اور تفریق کا اظہار سمجھا جا سکتا ہے، جو کہ عوام کی نظر میں ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پروٹوکول کا مقصد دراصل لوگوں کے درمیان احترام اور تسلیم کا اظہار ہوتا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ ایک ایسا حربہ بن چکا ہے جسے مخصوص افراد یا عہدے دار اپنی عزت و عظمت کا مظاہرہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے لیے خاص نشستیں، کھانے کے انتظامات، گاڑیوں کا انتظام، اور استقبال کے مخصوص طریقے مقرر کیے جاتے ہیں۔ یہ سب معاشرتی رکاوٹوں اور تفریق کی علامات ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ نظام کچھ افراد کو اپنے عہدے کا احساس دلاتا ہے، وہیں دوسری طرف یہ عوامی سطح پر اس فرق کو بڑھا کر ایک غیر مساوی معاشرتی ڈھانچہ تخلیق کرتا ہے۔
آج بھی اگر پاکستان میں حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کی اکثریت ہوتی تو آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی بہرحال کچھ لوگ واقعی قابل تحسین ہیں جنکا ذکر اپنے الفاظ میں کرنا حق کو اجاگر کرنا ہے۔ لاہور میں گزشتہ روز دھرم پورہ انڈر پاس پر ایک واقعہ پیش آیا، جہاں شدید رش کے دوران وی آئی پی پروٹوکول میں شامل گاڑیاں پہنچیں۔ ایک شہری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی گاڑی ہٹا کر لینڈ کروزر کو راستہ دے، مگر اس نے انکار کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ سڑک کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ یہ نوجوان اکیلا ہی وی آئی پی کلچر کے خلاف ڈٹ گیا۔ پروٹوکول میں شامل مسلح گارڈز نے فائرنگ شروع کر دی، مگر وہ شخص پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ وہاں موجود سینکڑوں لوگ تماشائی بنے رہے، جبکہ ایک عام شہری جرات اور بہادری کی مثال قائم کر رہا تھا۔ یہ واقعہ کیمرے کی آنکھ میں قید ہو گیا، ویڈیو وائرل ہوئی، اور نتیجتاً گارڈز کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ یاد رکھیں کہ دنیا انہی لوگوں کی ہے جو حق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، اور ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ میں سے ہر وہ شخص بہادر ہے جو ناانصافی کے خلاف بولتا ہے اور سچ کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ آج کے دور میں سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ہے، ورنہ شاید قانون بھی ان واقعات کو نظرانداز کر دیتا۔ میرے ملک میں اسی پروٹوکول کلچر نے معاشرتی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ جب ریاستی مشینری اور حکومت کے ادارے عوام کو غیر مساوی حیثیت میں دیکھتے ہیں، تو یہ عمل عوام میں عدم اطمینان اور بیگانگی کی وجہ بنتا ہے۔ عوام کی نظر میں یہ عہدے اور پروٹوکول صرف ایک طاقت کا کھیل بن کر رہ گے ہیں، جس سے عوام کا اعتماد ان اداروں پر سے اُٹھتا جا رہا ہے۔ عوام اور اداروں کے درمیان اس خلاء کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اور ادارے عوامی سطح پر مساوات کو فروغ دیں اور کسی بھی غیر ضروری پروٹوکول کو ختم کیا جائے, جب تک ملک میں یہ تبدیلی نہیں آتی عوامی سطح پر رکاوٹیں بڑھتی رہیں گی اور معاشرتی ہم آہنگی میں فقدان پیدا ہوتا رہے گا۔ اس پروٹوکول کلچر سے نجات پانے کے لئے اپنی سوچ اور رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ ہم ایک بہتر اور مساوات پر مبنی معاشرہ بنا سکیں۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل ایک بار پھر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، اور…
لاہور: سی ٹی ڈی نے ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف برکی روڈ کے قریب…
بنگلہ دیش کے شہر میگورا میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ پیش آنے والے ہولناک واقعے نے پورے ملک…
لاہور (14 مارچ): اداکارہ و ماڈل نادیہ حسین کی جانب سے ایف آئی اے پر بے بنیاد الزامات لگانے پر…
اہور (14 مارچ): بیجنگ انڈر پاس فائرنگ واقعے کے بعد محکمہ داخلہ پنجاب نے نجی سیکیورٹی کمپنی کے خلاف اہم…
جیکب آباد (14 مارچ): تاجو دیرو تھانے کی حدود میں غیرت کے نام پر خاتون کے قتل اور بغیر غسل…