وطنِ عزیز پاکستان میں ملازمتوں کے لئے دو اہم شعبے ہیں، ایک شعبہ سرکاری ہے جس میں نیم سرکاری بھی شامل ہے جبکہ دوسرا شعبہ پرائیویٹ شعبہ ہے۔ سرکاری شعبے کے بارے میں عوام الناس کا نقطہ نظر بہت اچھا ہے وہ سرکاری ملازمت کو بہت زیادہ پسند کرتے ہیں جبکہ پرائیویٹ شعبے کو عام طو پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ جو سرکاری ملازمت کر رہا ہو اسے تو برسرروزگار سمجھا جاتا ہے جبکہ پرائیوٹ ملازمت والا اگرچہ سرکاری ملازم سے زائد تنخواہ وصول کر رہا ہو اسے بے روزگار ہی خیال کیا جاتا ہے اور پرائیویٹ شعبے میں ملازمت کرنے والے سرکاری ملازمت کے لئے ہاتھ پاوّں مارتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری ملازمت کو اللّٰہ کی طرف سے روزی ملنا خیال کیا جاتا ہے اور اس پر شکر بھی ادا کیا جاتا ہے جبکہ پرائیویٹ ملازمت کو تو فضول خیال کر کے ہمیشہ نا شکری کے الفاظ ہی ادا کئے جاتے ہیں۔
اسکی وجہ یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں کافی مراعات ملتی ہیں، سب سے بڑی مراعات تو یہ ہے کہ یہ ملازمت مستقل ہوتی ہے اور ساٹھ سال کی عمر تک کوئی ان ملازمین کو اپنے کسی ذاتی مقصد کی خاطر ملازمت سے فارغ نہیں کر سکتا۔ مگر یہ کہ کوئی ملازمین سنگین نوعیت کا جُرم یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ اسکے علاوہ انکی ملازمت مقررہ معیاد تک بلا روک ٹوک جاری رہتی ہے۔
سرکاری ملازمت کی یہی خوبی ہمارے اچھے پڑھے لکھے ذہین، مخنتی اور با صلاحیت نوجوانوں کو اپنی طرف اس طرح کھینچ لیتی ہے کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کے زنگ آلود ہونے، اپنی محنت کے بل بوتے پر ترقی کرنے اور اپنی ذہانت کی وجہ سے دولت اور شہرت حاصل کرنے سے غافل کر دیتی ہے، اس لئے کہ سرکاری ملازمت میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ملازم محنت کے بل بوتے پر ترقی پائے یا اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اسے کوئی مالی فائدہ حاصل ہو ، بلکہ وہاں لگے قوانین ہیں جن کے مطابق انہیں ترقی ملتی ہے ان قوانین کے مطابق ہی انکی تنخواہیں مقرر ہوتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ایک کم پڑھا لکھا، سُست اور کاہل ملازم، ذہین محنتی اور با صلاحیت ملازم سے زیادہ تنخواہ وصول کر رہا ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات عہدے میں بھی اس سے بڑے درجے پر فائز ہوتا ہے کیونکہ یہاں صلاحیت و قابلیت کی بنا پر تنخواہ مقرر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کی محنت دیکھ کر ترقی دی جاتی ہے، بلکہ یہ چیزیں عمر اور سروس کو دیکھ کر مقرر ہوتی ہیں یا اس میں ایک اہم عنصر جسے تلخ حقیقت بھی کہہ لیجئے کہ اگلے درجات میں ترقی کے لئے محنت اور کارکردگی کے ساتھ ساتھ افسرانِ بالا کی خوشنودی کا حصول بھی ضروری ہوتا ہے، اگر اعلٰی افسران خوش ہوں تو آپکی ترقی ہوجائے گی ورنہ وہ اپنے خاص ہتھیار استعمال کر کے ترقی روک لیتے ہیں۔ یوں ملازم کی ساری محنت پر جُنبشِ قلم کے ذریعے پانی پھیر کر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری ملازمت کی خوبیوں میں مفت طبی سہولتوں، تنخواہوں میں سالانہ اضافہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پینشن وغیرہ بھی شامل ہیں۔
یہ خوبیاں عوام کی اکثریت کو سرکاری ملازمت کی طرف کھینچتی ہیں، جسکی وجہ سے ہمارے اچھے اچھے باصلاحیت نوجوان ضائع ہو جاتے اور وہ ساری عمر اسی کُرب میں گزار دیتے ہیں۔ ہمیں اکثر ایسے نوجوان بھی ملتے ہیں جو بڑی بڑی ڈگریاں اُٹھائے چھوٹی چھوٹی سرکاری ملازمتوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے ہیں، اگرچہ وہ اچھی پرائیویٹ ملازمت کر بھی رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذہنوں پر یہی خوف سوار ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت یہاں سے کسی پیشگی نوٹس کے بغیر ہی فارغ کیا جا سکتا ہے۔
ایسے با صلاحیت افراد کے لئے بہتر ہے کہ اگروہ اپنا کوئی کاروبار وغیرہ کر سکتے ہیں تو یہ ملازمتوں سے کہیں بہتر ہے، جہاوہ اپنی محنت اور اور صلاحیت کی بناء پر ترقی کر سکتے ہیں اور اس ترقی کے لئے کسی کی خوشنودی بھی درکار نہیں ہوتی۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے یعنی اگر اُن کے پاس اپنے کاروبار کے لئے رقم یا صلاحیت نہیں ہے تو پھر موجودہ حالات میں اُنہیں سرکاری ملازمت کی ہی کوشش کرنی چاہیے مگر اتنی زیادہ سرکاری ملازمتیں بھی تو نہیں ہوتیں کہ ہر شخص کو یہ مل جائے اس میدان میں بہت بڑا مقابلہ ہوتا ہے اور اسکی پُر کشش مراعات کی وجہ سے ہر فرد کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے کامیاب ہو جائے اس کے لئے بہت سے لوگ اسطرح کا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، خواہ اسکے لئے رشوت دینی پڑے یا اثر رسوخ والوں سے سفارشیں کروا کر کسی دوسرے کی حق تلفی کا ارتکاب ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
عوام میں اس رجحان کو کم کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ موّثر قانون سازی کرئے اور سرکاری شعبے کی طرح پرائیوٹ شعبے کو بھی مراعات دے۔ جس طرح سرکاری شعبے ملک کو چلانے کے لئے ضروری ہیں اسی طرح پرائیویٹ شعبے میں قائم ادارے بھی ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں اور ان کے بغیر بھی ملک کا نظام چلانا ناممکن ہے۔ اس لئے اس شعبے کی بہتری کے لئے بھی حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور اسے بھی اتنا پُر کشش بنا دینا چاہیے کہ عوام بخوشی اس شعبے میں اپنی خدمات سر انجام دیں اور سرکاری شعبے پر بوجھ نہ بنیں۔ اس لئے اس شعبے سے ٹیکس کم سے کم کئے جائیں اور ساتھ ہی پرائیویٹ اداروں کے مالکان و ذمہ داروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ملازموں کو اپنی آمدن کے مطابق پُر کشش تنخواہیں دیں اور یک دم ملازمت سے فارغ کرنے کی بجائے کم از کم تین ماہ قبل نوٹس دیں اسکے علاوہ حکومت خود بھی پرائیویٹ شعبے میں کام کرنے والوں کو طبی سہولیات فراہم کرئے اور زیادہ عمر تک ملازمت کرنے کے بعد سبکدوش ہونے والے افراد کو معقول وظائف سے نوازے۔ یوں عوام سرکاری شعبے کی طرف لپکنے کی بجائےپرائیویٹ شعبے کو بھی بخوشی اپنائیں گے اور پرائیویٹ شعبے میں رہتے ہوئےملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔