ایک وقت تھا جب فری لانسر کو ایک بیکار انسان سمجھا جاتا تھا اور یہ رائے عام تھی کہ جسے کوئی کام نہیں آتا وہ فری لانسر بن جاتا ہے کیونکہ ملک بھر میں ڈاکٹر انجینئرز اور چارٹرڈ اکاوّنٹنٹ کے علاوہ باقی تمام شعبے تقریباٙٙ بی یا سی کلاس سمجھے جاتے تھے۔ پہلے پہل جو بچے کمپیوٹر پر کام کرتے تھے وہ نالائق تصور کئے جاتے تھے اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر فری لانسنگ کرنا تو یوں سمجھ لیجئے کہ بیکاری اور نالائقی کی تصدیق شدہ دو مہریں لگ گئی ہوں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے خاص طور پر کورونا کی وجہ سے پاکستان میں آجکل کے حالات میں فری لانسنگ ایک نعمت کے طور پر سامنے آئی ہے جس نے نہ صرف گھروں کے بند چولہوں کو جلایا ہے بلکہ بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے میں بھی مدد گار ثابت ہوتی دِکھائ دے رہی ہے۔ ایک انٹرنیشنل رپورٹ کے مطابق کمائی کے لخاظ سے پاکستان فری لانسنگ گروتھ میں دُنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ امریکہ 78 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، برطانیہ 59فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، برازیل 48 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر جبکہ پاکستان 47 فیصد کے ساتھ چوتھے نمبر ہر ہے۔
اگر صرف ایشیائی ممالک کی بات کی جائے تو پاکستان پہلے نمبر پر آتا ہے یعنی پاکستان نے بھارت اور بنگلہ دیش کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے ملک کو یہ اعزاز دلانے والوں میں اکثریت 25سے 34 سال تک کے نوجوانوں کی ہے۔ 2018 میں پاکستان میں فری لانسرز کی تعداد 60 ہزار تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق 42 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
دی گلوبل اکانومی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں فری لانسنگ سے حاصل آمدن میں بھی 42 فیصد اضافہ ہو چکا ہے ان میں ایسے پاکستانیوں کی آمدن شامل نہیں ہے جو پاکستان میں بیٹھ کر فری لانسنگ سے آن لائن ڈالرز کماتے ہیں مگر اس رقم کو پاکستان منتقل کرنے کی بجائے بیرونِ ملک اکاوّنٹس میں ہی رکھتے ہیں۔ اگر ایسے افراد کو بھی شامل کر لیا جائے تو ممکن ہے پاکستان دُنیا میں فری لانسنگ کے حوالے سے دوسرے نمبر پر آنے میں کامیاب ہو جائے۔
یہ گروتھ ایسے حالات میں ہوئی جب پاکستان میں آن لائن ادائیگیوں کے لئے پے پال موجود نہیں ہے۔ قانونی راستہ استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے ایمازون پر کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اس کامیابی کی بہت سی وجوہات ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔
سب سے پہلی وجہ شعور ہے اور وہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک آپکا واسطہ کسی ایسے شخص کے ساتھ نہ پڑ جائے جو آپکو سکھانے اور سمجھانے کے لئے مخلص ہو۔
دوسری وجہ پاکستان کے حالات ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں سروس چارجز بہت زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں بہت کم، مثلاٙٙ اگر آپ ایک لوگو بنوانا چاہتے ہیں تو نیو یارک میں شاید اسکا ریٹ دو ہزار ڈالر تک ہو لیکن اگر آپ فائیور یا اپ ورک پر جا کر وہی لوگو بنوانا چاہیں تو پاکستان میں بیٹھا ہوا فری لانسر آپکو ایک ہزار ڈالر میں بنا دے گا جو کہ پاکستانی ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے بنیں گئے۔ یہ وہ کمائی ہے جو ایک فری لانسر چند دن کی محنت سے کر لے گا جبکہ پاکستان میں پورا مہینہ نوکری کرنے والا پڑھا لکھا شخص بھی اوسطاٙٙ بیس سے تیس ہزار روپے کما پاتا ہے۔
تیسری وجہ کورونا وائرس ہے۔ جب سے دُنیا کی ملاقات کووڈ 19
سے ہوئی ہے، کاروبار، دوکانوں اور شاپنگ مالز سے نکل کر ویب سائٹس پر منتقل ہو گئے ہیں جو پریزنٹیشنز دوکان پر کی جاتی تھی اب انکا مرکز آن لائن سٹورز ہیں جہاں آپکو گرافک ڈیزائنز سے لیکر ڈیٹا آپریٹر تک آن لائن سٹاف کی ضرورت پڑتی ہے۔ گو کہ کورونا وائرس آنے کے بعد کمپنیاں بند ہونے سے بین الاقوامی کمرشل کلائنٹس میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن یہ اتنی بڑی مارکیٹ ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اگر پورا پاکستان بھی فری لانسنگ شروع کر دے پھر بھی کام بچ جاِے گا۔
کووڈ کے بعد پوری دُنیا میں بے روزگاری بڑھی ہے، پاکستان بھی اس کے اثرات سے بچ نہیں سکا گو کہ باقی ممالک کی نسبت پاکستان کو وہ جانی نقصان نہیں اُٹھانا پڑا مگر جن کی نوکریاں ختم ہوئی ہیں ان میں سے اکثریت کا رجحان فری لانسنگ کی طرف ہی گیا اور اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ برآمدات بڑھانا اور ڈالر کی قیمت کو نیچے لانا ہے تاکہ ملک میں مہنگائی کم ہو اور عام آدمی کی زندگی بہتر ہو سکے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے لئے فری لانسنگ پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے وہ فری لانسنگ کو سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب کا حصہ بنائیں، ماہانہ بنیادوں پر سیمینار اور ورکشاپس منعقد کروائی جائیں، بیرونِ ملک سے کامیاب ٹرینرز کو پاکستان میں بلایا جائے۔ پاکستان میں فری لانسنگ کے ماہرین کو وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی میں نمائندگی دی جائے۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے فری کورسز کا اہتمام کیا جائے اور چھ ماہ بعد رپورٹ جاری کی جائے کہ ان کورسز سے بچوں کو یہ فائدہ پہنچا ہے اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو پاکستان سب سے زیادہ ڈالر کمانے والا ملک بن سکتا ہے جس سے نہ صرف پاکستان کے قرضے اُتریں گے بلکہ پاکستان ترقی کی نئی منازل بھی طے کر سکے گا۔
بقلم کاشف شہزاد