عروج اور زوال وہ حقیقت ہے کہ جن کی وجہ سے زندگی کا سرکل چلتا رہتا ہے۔ ایک چائنیز مفکر کنفیوشس لکھتا ہے کہ عروج اور زوال کا سلسلہ ابدی ہے، انسانی زندگی اور معاشرے میں چند مثبت اور تعمیری محرکات کا پیدا ہونا در حقیقت کسی زوال سے عروج کی طرف زندگی کی عکاسی کرتا ہے شرط یہ ہے کہ کسی جماعت ادارے یا تنظیم کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ فلموں میں جاندار اداکاری ،مضبوط خیال اور اعلٰی پائے کی موسیقی نے فلم بینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھی۔ درحقیقت یہ اس دور کے فنکاروں، کہانی کاروں، موسیقاروں، اور گلوکاروں کی انتھک محنت کا نتیجہ تھا کہ اچھی تخلیق جنم لیتی تھی وہ بھی ایسی تخلیق جن میں عمدہ اداکاری، بہترین پروڈکشن اور سبق آموز کہانیاں پائی جاتی تھیں۔ اداکار اتنے ڈوب کر اداکاری کرتے تھے کہ انکا اصل نام ہی بھول جایا کرتا تھا اور صرف کردار ذہنوں پر نقش رہتا تھا، اور یہی کردار شائقین کے دلوں میں گھر کر جاتا تھا۔ ان کرداروں کی کامیابی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ کردار حقیقت کے بالکل قریب تر ہوتے تھے جو انہیں بُلندیوں کی عروج پر پہنچا دیتے تھے۔
میرے نزدیک وزیرِ اعظم کا وژن ایک ایسا وژن ہوتا ہے جو معاشی پہلووّں پر چھایا ہوا ہوتا ہے اسی سلسلے میں وزیرِ اعظم عمران خان نے فنکاروں اور فلم سازوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران فلمی صنعت کی ساکھ کی بحالی اور فنکاروں میں محنت کے جذبے کی نہ صرف تعریف کی بلکہ اسے صنعت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے پر بھی زور دیا ہے۔
جس پر فیڈریشن کے صدر نے فنکاروں کی حوصلہ افزائی اور فلمی صنعت کی بحالی میں گہری دلچسپی پر وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا انکا خیال ہے کہ اس امر سے فنکاروں میں محنت اور لگن کا جذبہ پیدا ہو گا اور وہ دن دور نہیں کہ جب لوگ پھر سے سینما گھروں کا رُخ کریں گئے کیونکہ جس طرح زوال کے بعد عروج کی کہانی پھر سے توانائی اور رعنائی سے شروع ہوتی ہے ٹھیک اُسی طرح فلمی صنعت اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی مگر اس کے لئے بنیادی شرط خوب سے خوب تر کی تلاش ہونی ضرور ہے۔
بے شک ہمارے فنکار تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ حوصلہ،جذبہ اور قیادت بھی رکھتے ہیں جو فلم انڈسٹری کی بحالی کے لئے روح رواں ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر فنکار نے یقیناٙٙ اپنے دور کے ناظرین کے لئے وہ فلمیں چھوڑی ہیں کہ جو آج تک فلم بینوں کے ذہن پر نقش ہیں۔ ان فلموں نے آج تک فلم کے شائقین کو اپنی گرفت میں جکڑا ہوا ہے اور وہ جیتی جاگتی کہانیاں ہمارے معاشرے میں موجود بھی ہیں۔
جدید تقاضوں، وسائل اور مسائل کو سامنے رکھ کر بنائی جانے والی فلمیں یقیناٙٙ نئی زندگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں اور اس کے لئے چند محرکات جو فلمی صنعت کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہیں کو ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا جن میں حکومتی سرپرستی فنکاروں کی لگن نئے تقاضے، موضوعات میں تنوع، کہانیوں میں انفرادیت نمایاں ہیں، اگر اس جذبے سے فلمیں بنتی ہیں تو ایک طرف تو اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے لوگوں کی دلچسپی کا باعث بنیں گی اس کے ساتھ دوسری طرف وہ مقام حاصل کر لیں گی جو کبھی فلم کو حاصل رہا تھا۔
مشہور مفکر شبلی نعمانی کا قول ہے کہ کسی بھی کام کی ازسر نو اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ دوبارہ سے اسی نکتے سے کام کا آغاز کیا جائے جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اصلاحی اور تعمیری پہلووّں کو سامنے رکھا جاتا ہے کہ بہتر سے بہتر کو تلاش کیا جا سکے۔
وزیرِاعظم پاکستان کے ساتھ ملاقات میں جن اصلاحی امور کا ذکر کیا گیا ہے اگر انکو بنیاد بنا کر من و عن کام کیا جائے تو منزل باآسانی حاصل کی جا سکتی ہے اور فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہو کر اپنا مقام پیدا کر سکتی ہے۔
بقلم: امتل ھدٰی