پی ڈی ایم حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلا رہی ہے۔ اس تحریک کا واحد ہتھیار، نعرہ مہنگائی ہے۔ پی ڈی ایم کے پاس عوام کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے واحد تدبیر یہی ہے اور یہی حکومت کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ پی ڈی ایم کی جماعتیں مدتوں اس ملک پر کلی یا جزوی حکمرانی کر چکی ہیں۔ ان کے ادوار میں ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں نہ ان ادوار کو یادگار اور آئیڈیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان جماعتوں کے عہد اقتدار میں عوام کے دن روتے دھوتے گزرے ہیں۔ عوام کا حافظہ بھی اتنا کمزور نہیں کہ ماضی قریب کی ان یادوں کو محو کردیں۔ ووٹ کو
عزت دینے جیسے آئیڈیل نعرے عوام سے کوئی تعلق نہیں رکھتے یہ پاورگیم کے کھیل کا حصہ ہیں۔ طبقاتی جنگ کا کھیل ہے۔ حکومت ان کے گرد شکنجہ کسنا چاہتی ہے اور یہ جماعتیں حکومتی شکنجہ توڑنے کے بجائے حکومت ہی کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اس کھیل سے عوام کا کیا لینا دینا ہے۔ اس کھیل میں عام آدمی کے لیے پرکشش نعرہ مہنگائی ہے کیونکہ اس حرمان نصیب زمینی مخلوق جس کا نام عام آدمی ہے کے لیے مہنگائی ہی زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔ بالائی کلاس کو جس سے حکمران اور اپوزیشن دونوں تعلق رکھتے ہیں مہنگائی کے اثرات سے محفوظ اور ان لہروں سے بچے رہتے ہیں۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ گوشت کلو کے حساب سے فروخت ہوتا ہے یا سینٹی میٹر کے حساب سے۔ اسی لیے پی ڈی ایم نے بہت سوچ بچار کے بعد عوام کے دلوں کے تار چھیڑنے کے لیے اپنی تحریک مہنگائی کے نعرے کی بنیاد پر آگے بڑھانے کا راستہ اپنایا ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی اور مشکل بھی یہی ہے کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول نہ کرسکی۔ اس کے باوجود عمران خان کا فین کلب کمزور نہ ہوا مگر عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں عاجز اور پریشان ہے اور وہ پی ڈی ایم کے نعروں میں دلچسپی لیتا ہے۔
ایک طرف حکومت اور اداروں کا دعویٰ ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے تو دوسری طرف اس کے اثرات زمین پر نظر نہیں آتے۔ گزشتہ دنوں اسٹیٹ بینک نے کہا تھا کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں 46کروڑ اڑسٹھ لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوگیا ہے۔ جس کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 20ارب پچپن کروڑ ڈالر ہو گئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب ہماری حکومت بنی تو درآمدات اور برآمدات کا فرق چالیس ارب ڈالر تھا۔ سترہ سال بعد پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ پلس میں آگیا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بہتری آگئی ہے۔ استحکام حاصل کرنے کے بعد اب ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اور وزیر اعظم کا اظہار اطمینان اس لحاظ سے خوش آئند ہے یہ وہی ملک ہے جس کے بارے میں چند سال پہلے تک دیوالیہ ہوجانے کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ دہشت گردی نے جس کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑدیا تھا۔ ملک کو ایک طرف توانائی کے بدترین بحران کا سامنا تھا تو دوسری طرف سرمایہ کار اپنا سرمایہ نکال کر ملک سے باہر منتقل کر رہے تھے۔ سرمایہ کار تو اپنا سرمایہ نکالنے میں حق بجانب بھی تھے مگر حکمران گھرانے اور بیوروکریٹس بھی منی لانڈرنگ کر کے قومی دولت مختلف طریقوں سے بیرونی دنیا میں پہنچا رہے تھے۔ یہ ایک ایسے طوفان کی آمد کا اشارہ تھا جس کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں۔ اس سے ملک میں ایک غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو رہی تھی۔ لوگ ملک کے مستقبل سے مایوس ہورہے تھے۔ اب اگر معیشت میں بہتری کے آثار ہیں تو اسے ایک معجزہ ہی کہا جاسکتا ہے۔
معیشت کی بہتری کے اثرات اب عام آدمی تک پہنچنا لازمی ہوں گے۔ اس وقت عام آدمی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ مہنگائی نے عام آدمی کا سانس لینا محال بنا دیا ہے۔ آٹا، چینی، دالیں، گھی اور انڈے جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ اس طرز کے حالات کے باعث معاشرے میں بدترین معاشی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا ہے۔ مڈل کلاس ختم ہوجاتی ہے اور اوپر امیر تو نیچے غریب کراہتا اور حالات کی کیچڑ میں لت پت نظر آتا ہے۔ کورونا کی وبا عام آدمی کے سر پر پھٹنے والا ایک اور معاشی بم ثابت ہوئی ہے۔ ان حالات میں یہ ضروری ہوگیا ہے کہ حکومت معاشی استحکام کے اثرات عام آدمی تک پہنچائے اور مہنگائی کے جن کو قابو کرکے عام آدمی کو ریلیف فراہم کرۓ۔ اس کے سوا عام آدمی کو معیشت کی بہتری کے دعووں پر یقین نہیں آسکتا۔ ملکی معیشت بہتر ہو اور معاشرہ اس کے اثرات سے محروم رہے۔ وزیر اعظم کو اپنی معاشی ٹیم کو یہ ہدف دینا چاہیے کہ معیشت میں بہتری کے ساتھ ہی مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھائیں۔
حقیقت یہ ہے حکومت کو انتظامی مشینری اورقانون کا سہارا لے کر مہنگائی کا علاج دریافت کرنا چاہیے۔ یہ کورونا نہیں کہ جس کی ویکسین کی تیاری کے لیے مدتیں درکار ہوں یا کہیں باہر سے ویکسین درآمد کی جانی مقصود ہو۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنا حکومت کے اختیار میں ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ انتظامی عناصر مافیاز کے ساتھ مل کر ہیرا پھیری کر رہے ہیں جس سے مہنگائی کو مصنوعی طور پر بڑھایا گیا۔ اس کا حل نکالنا بھی حکومت ہی کی ذمے داری ہے۔ معیشت کی بہتری کے اثرات عام آدمی تک نہ پہنچے تو ان دعوئوں کی صداقت اور حقیقت سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گی۔
بقلم: کاشف شہزاد