عالمی ادارہ صحت نے پُر زور وارننگ جاری کی ہے کہ دُنیا میں بالخصوص کئی ایشیائی ممالک میں فضائی آلودگی محفوظ حدوں سے تجاوز کر چکی ہے، چنانچہ ان حکومتوں پر لازم ہے کہ آلودگی پر قابو پائیں۔ عالمی ادارہ نے یاد دلایا ہے کہ دُنیا بھر میں ایک سال کے دوران تقریباٙٙ 65 لاکھ اموات کا تعلق براہ راست آلودگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ بہت سے اعدادوشمار جمع کرنے کا رواج ہے لہذا ہم نہیں جانتے کہ ہمارے ملک میں کتنے افراد ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں البتہ آلودگی کی جو صورت ہےاور ہم اس میدان میں جو ریکارڈ قائم کر رہے ہیں اس کے تناظر میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی اموات کی تعداد دیگر آلودہ ترین ممالک سے کم نہ ہو گی۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم نے فضائی آلودگی کے دن منائے، ان دنوں کے دوران ملک کے کئی شہر اس خطے کے آلودہ ترین شہروں سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں شہری فضا ہمیشہ ہی آلودہ ہوتی ہے، موسم سرما کے آغاز سے اس میں صرف فصلوں کی باقیات کے جلنے سے اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن کوڑا کرکٹ جسمیں پلاسٹک کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ہم پورا سال باقاعدگی سے جلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے صفائی کے تصور میں ایسا کرنا شائد مرکزی حثیت رکھتا ہے کیونکہ صفائی کا جو انتظام ہے اسمیں اگر کوڑا کرکٹ کو جلا کر اس نظام کی مدد نہ کریں تو خدشہ ہے کہ ہمارے شہر گندگی سے بھر جائیں۔ ہمارے کارخانے اور اس ضمن میں خشت سازی کے بھٹے بالخصوص قابلِ ذکر ہیں جو سارا سال گھٹیا اور سستا ایندھن استعمال کر کے لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اس سے زہریلا دھواں فضا کو سانس لینے کے قابل نہیں چھوڑتا۔ ہمارے ہاں کوئی ایسا نظام نافذ نہیں جو یقینی بنائے کہ جو دھواں فضا میں خارج کیا جا رہا ہے وہ سائنسی اعتبار سے معیار کے مطابق ہے یا نہیں۔ عین ممکن ہے کہ قوانین موجود ہوں، عین ممکن ہے کہ ادارے، دفاتر اور اہلکار بھی موجود ہوں لیکن یہ بھی عین ممکن ہے جن کی ذمہ داری ہے وہ معاشرے میں فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہوں کیونکہ ہمارے ہاں یہ سب کچھ کاغذوں کی حد تک محدود رہتا ہے۔
ہمارے ہاں پٹرول و ڈیزل میں ملاوٹ کی شکایات بھی بارہا دفعہ موصول ہوتی ہیں، ملاوٹ کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ انجن کا دھواں مزید آلودہ ہو جاتا ہے جس سے سانس کے مسائل مزید بڑھتے ہیں۔ پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ پر بے تحاشا بوجھ ڈالنا ہمارا روز مرہ کا معمعول ہے، گاڑیوں میں سواریاں جتنی ہونی چاہیے اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں، گڈز ٹرانسپورٹ پر سامان جتنا لادنا چاہیے اس سے زیادہ لادا جاتا ہے اس طرح گاڑیاں دھواں زیادہ چھوڑتی ہیں جس سے ان میں مضر کثافتوں کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ہمارا رواج یہ ہےکہ جب تک گاڑی چل رہی ہےاس وقت تک اسکی معمول کی دیکھ بھال کا تصور تک موجود نہیں اس وجہ سے ہر انجن کی کارکردگی بہتر نہیں رہتی۔ یہ مسئلہ دیگر کئی قومی مسائل کی طرح گورننس سے جڑا ہوا ہے جب تک گورننس ناقص ہوگی اس وقت تک ہمارے مسائل میں کمی نہیں ہوگی اسمیں صرف اضافہ ہی ہوتا رہے گا لہذا حکومت کو چاہیے کہ ان معاملات میں اپنا فعال کردار ادا کرئے اور ان مسائل کے حل کے لئے ایک روڈمیپ بنائے تاکہ عوام سُکھ کا سانس لے سکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد