اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دُنیا
میں
15
سے
64
سال عمر کے تقریباٙٙ 35کروڑ افراد منشیات کے
عادی ہیں۔ یہ منشیات ایک زہرِ قاتل نشہ ہیں جو بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اسوقت ملک کی
22
فیصد دیہی اور 38فیصد شہری آبادی منشیات کا شکار ہوچکی ہے۔ منشیات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے نوجوان لڑکے ہیں۔ پنجاب کے 55 فیصد جبکہ دوسرے صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں سالانہ 5 لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔
منشیات کے استعمال نے معاشرے کو جو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اسکا کسی صورت بھی مداوا نہیں ہو سکتا۔ منشیات نے کڑیل جوانواں اور والدین کے سہاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
سابق وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں ہر شہر میں محکمہ ایکسائز سے لائسنس لیکر افیون کے ٹھیکے چلتے تھے جہان پر افیون فروخت ہوتی تھی وہاں افیون کے ٹھیکہ دار لائسنس کی آڑ میں چھپ چھپا کر شراب اور چرس بھی فروخت کرتے تھے اُس وقت پاکستان میں سب سے بڑا نشہ چرس افیون یا شراب کا ہوتا تھا لیکن حکومت پاکستان نے 1977 میں تمام منشیات پر پابندی عائد کر دی اور افیون ٹھیکہ کے تمام لائسنس کینسل کر کے اُنہیں سیل کر دیا۔ اور جو لوگ افیون کا نشہ کرتے تھے انکی بحالیِ علاج کے لئے ترک افیون گولیاں بنوائیں تاکہ اس سے ان کا علاج ممکن بنایا جا سکے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں افغانستان میں روسی یلغار کی بدولت افغان مہاجرین کی پاکستان آمد ہوئی اور ساتھ ہی اس دور میں کلاشنکوف و ہیروئن کلچر بھی پروان چڑھ گیا اس دور میں ہیروئن کا جو تحفہ پاکستان میں داخل ہوا اس کی تباہ کاریوں سے پوری دُنیا میں ہلچل برپا ہوگئی۔ دہشت گردی کے بعد دُنیا کو سب سے بڑا خطرہ جو محسوس ہوا وہ منشیات کے استعمال کا تھا۔ گھروں کے گھر اس موذی نشہ کی زد میں آ کر اُجڑ گئے آخر کار یہ نشہ کسی حد تک اپنی موت آپ مر گیا لیکن اسکی تباہ کاریاں ابھی تک نشانِ عبرت ہیں۔ ہیروئن کے نشہ نے گھروں کے گھر اُجاڑ کر رکھ دئیے۔
ہیروئن کا نشہ تو اب کسی حد تک ختم ہو چکا ہے لیکن اب اسکی جگہ انتہائی مہلک اور مہنگے ترین نشے آئس نے لے لی ہےجبکہ اب جگہ جگہ حُقہ نشہ عام ہو رہا ہے۔
اس بگڑتی صورتحال میں والدین سب سے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بچوں کی پہلی درس گاہ ماں باپ کی گود ہوتی ہے اور تربیت کا عمل گھر سے ہی شروع ہوتا ہے اگر والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انہیں غلط و درست راہ کی تمیز سیکھائیں تو بہت سے مسائل سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں انکے بدلتے ہوئے روئیے اور معمولات پر نظر رکھیں اور کوئی بھی غیر معمولی بات سامنے آئے تو فوری نوٹس لیں اسکے ساتھ ساتھ بچوں کی متواتر کونسلنگ کرتے رہیں اور ان سے دوستانہ رویہ اپنائیں۔
نشہ کی اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے والدین کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، حکومت کو چاہیے کہ مختلف جگہوں پر نشہ کے نقصانات کے متعلق سیمنارز منعقد کروائے، ٹیلی ویژن، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے آگاہی مہم چلائے تاکہ پاکستان کی نواجوان نسل میں آگاہی پیدا ہو اور وہ اس جان لیوا آفت سے اپنے آپکو بچا سکیں۔
بقلم: کاشف شہزاد