سونا قدیم زمانہ ہی سے عورتوں کی کمزوری ہے اگر یہ کہا جائے کہ زیورات سے محبت عورتوں کی جبلت میں شامل ہے تو بے جا نہ ہوگا اسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے جیولرز نے عوام کو ایک ایسے گورکھ دھندے میں الجھا دیا ہوا ہے جس سے نکلنا محال ہے۔
لفظ جیولر تو آج مروج ہوا ہے لیکن برِصغیر میں صدیوں سے سونے کا کاروبار کرنے والوں کو سُنیارا کہا جاتا ہے جو انتہائی چالاک اور ہوشیار ہوتے ہیں، انکی چکنی چوپڑی باتوں کے آگے گاہکوں کی کوئی دال نہیں گلتی تھی۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران سونے کی قیمتوں میں جس طرح ہوشربا اضافہ ہوا ہے اس طرح لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اب اتنے مہنگے زیورات کون خریدے گا لیکن آپ اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گئے کسی جیولری والے کی دُکان بند نہیں ہوئی بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ انتہائی منافع بخش کاروبار ہے۔
بیشتر لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایک تولہ سونا میں 11.66گرام ہوتے ہیں اسی طرح ایک تولہ سونا میں 12 ماشے ہوتے ہیں ، اگر آپ 1 تولہ سونے کے تیار زیورات اسی سُنار کو فروخت کرتے ہیں جس سے بنواتے ہیں تو وہ آپ کے زیورات میں سے 2 ماشے کٹوتی کرتا ہے اور اگر آپ نے سونا کسی اور سے بنوایا ہے اور فروخت کسی اور سُنار کو کر رہے ہیں تو آپ کے 1 تولہ زیورات سے 3ماشے کٹوتی کرتا ہے، یعنی آپ نے اگر ایک تولہ سونا زیور فروخت کیا تو کٹوتی کے نام پر آپکے 3 ماشے گئے۔ اس ہوشیاری کو سُنار ایک رتی ماشہ یا 2رتی ماشے کا نام دیتے ہیں۔ اگر ایک رتی ماشہ کی اندازہ قیمت 9000روپے لگائیں تو آجکل ایک تولہ سونا زیور بیچنے سے سُنار نے آپکے 27000 کٹوتی کے نام پر کاٹ لئے اور آپ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔
اسکا دوسرا پہلو اس سے بھی ہولناک ہے، مطلب آپ زیور بنواتے ہیں تو یہ بات پیشِ نظر رکھیں ایک تولہ سونا 24قیراط ہوتا ہے، اس سارے معاملے کو جاننے کے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ قیراط کس چیز کا نام ہے۔ قیراط اصل میں سونے کے خالص پن کو ماپنے کا معیار اور پیمانہ ہے۔ تقریباٙٙ 100فیصد خالص سونا 24قیراط ہوتا ہے، اس سے جتنے قیراط کم ہوں گے اتنی اس سونے میں ملاوٹ شامل کی جاتی ہے اگر ہم اسے ایک مثال سے سمجھیں تو کیا ہی اچھا ہوگا۔ اگر کوئی 12 قیراط کا سونا لے تو اس میں 50فیصد خالص سونا اور 50فیصد ملاوٹ ہوگی ۔ اگر کوئی 18 قیراط کا سونا لے تو اسمیں 75فیصد خالص سونا اور 25فیصد ملاوٹ ہوگی جب کوئی شخص سونا بنواتا یا خریدتا ہے تو سُنار اسے 15 سے 18 قیراط کے درمیان بنا کے دیتے ہیں جبکہ اسکی قیمت پوری وصول کی جاتی ہے۔
سونے کی یہی خریدو فروخت ایک گورکھ دھندہ ہے جس کی کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
جیولرز کی کمائی کا ایک اور طریقہ پالش کے نام پر ہوتا ہے جو کہ وہ ایک ماشہ کے قریب زیور بنانے کے ساتھ لگا لیتے ہیں کہ اتنا سونا ہمارا زیور بناتے ہوئے ضائع ہوا یا پالش کی نذر ہوا۔
سُنار لوگوں کی اس ہوشیاری سے بچنے کا ایک طریقہ اپنایا جا سکتا ہے وہ یہ کہ سونا بیچتے وقت سونے کی ڈلی بنوا لیں اس سے ملاوٹ نکال لی جاتی ہے اور خالص سونا 24قیراط کا ہی باقی رہتا ہے جس سے بیچنے والے کو کم سے کم نقصان ہوتا ہے مگر وہ ڈلی بھی کسی تسلی والے سُنار سے بنوائی جائے تو بہتر ہے کیونکہ ہر کوئی آپ کو اتنی قیمت پرچیزکیونکر بنا کر دے گا جس میں صرف گاہک فائدہ ہو۔
بقلم: امتل ھدٰی