مادری زبان وہ زبان ہوتی ہے جو بچے کے ماں باپ بولتے ہیں۔ وہ قومیں جو اپنے بچوں کو مادری زبان میں پڑھاتے ہیں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت آسان اور تخلیقی ہوتی ہے۔
سکول کے لیول میں بچے کو تہذیب، ثقافت، اقدار، روایات، قومی نظریئے اور مذہب کے بارے تعلیم دی جاتی ہے۔ گریجوایشن کے بعد طالب علم سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ قوم معاشرے کے لئے کوئی اچھا متبادل یا نئی تخلیق و تحقیق پیش کرئے یہ طریقہ کار ترقی یافتہ ملکوں کا ہے۔ یہ قومیں 30-35 سال اپنے طالبعلم کی تعلیم و تربیت پر سرمایہ کاری کرتی ہیں اس کے بعد طالب علم سے سماج و قوم کی بہتری و ترقی کے لئے اپنا حصہ خیر ڈالنے کی اُمید کرتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان اور پاکستان کی پچھلے ایک ہزار سال کی علمی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو بیرونی زبانوں فارسی، عربی اور انگلش وغیرہ کی جبری تسلط نے یہاں بسنے والی اقوام کی تخلیقی سوچ مسل کر رکھ دی ہے۔ اس علاقے میں تمام علمی کاوشیں پرانی زبانوں کو سیکھنا اور بعد میں اسی زبان میں موجود علم کے قصیدے پڑھنا یہاں کے علم و ہنر کی نشانی تھی۔ تخقیق و تخلیق میں ہمارا یعنی پاکستان اور ہندوستان کا حصہ صفر ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کی مادری زبان ہماری قومی زبان سے مختلف ہے مطلب یہ کہ ہماری مادری زبانیں پنجابی، سندھی بلوچی ، سرائیکی اور پشتو ہے مگر قومی زبان اُردو ہے۔ جس کو بولنے والوں کی تعداد بائیس کروڑ کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر ہے یعنی ہمارے ملک کا ہر بچہ پہلے ہی دن زبان کے گرداب میں پھنس جاتا ہے۔ بچہ جس گھر میں آنکھ کھولتا ہے اسکا پالا پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی یا پشتو زبان سے پڑتا ہے۔ پانچ سال تک جب وہ اس زبان پر عبور حاصل کر لیتا ہے تو سکول میں اُردو ہماری قومی زبان سے سامنا ہوتا ہے۔ ابتدائی سکول میں بچہ اُردو کے سیکھنے میں لگ جاتا ہے۔ بچے نے ابھی پنجابی اُردو سیکھی ہی ہوتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کی زبان انگریزی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارے قوم کے بچے ساری زندگی جب کوئی بات کرتے ہیں تو پہلے پشتو، پنجابی، بلوچی میں سوچتے ہیں پھر بات کرنے کے لئے اسکو اُردو انگریزی میں ترجمہ کرتے ہیں یہی حال ہماری تخقیقی سوچ کا ہے۔ چونکہ ہم زبانوں کو سیکھنے کی دوڑ میں رٹے لگا لگا کر سیکھتے ہیں اسی لئے ہمارے پاس فکری سوچ کی گنجائش نہیں ہوتی اور ہم تخلیقی و تخقیقی سوچ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ دُنیا امریکہ، برطانیہ، یورپ اور جاپان اپنی مادری زبانوں میں پڑھاتے ہیں، نہ صرف پڑھاتے ہیں بلکہ اپنی زبان سے پیار کرنا سیکھاتے ہیں اور اس حد تک پیار کرنا سیکھاتے ہیں کہ پچھلے سال فرانس نے اپنے ایک وزیر کو اس وجہ سے فارغ کر دیا کہ اس نے اقوامِ متحدہ کے اجلاس کے دوران ایک آفیشل نشست میں انگریزی میں بات کی تھی۔ فارغ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کیا آپ کے پاس اپنی قومی زبان فرانسیسی نہیں تھی کہ آپکو دوسروں کی زبان بولنی پڑی۔
ایک ہم پاکستانی ہیں کہ وزیراعظم کے انتخاب میں ہماری قومی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اسکو انگریزی زبان کتنی آتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری مادری اور قومی زبانیں علمی زبان کا کام نہیں کرتی حالانکہ ان زبانوں کا اصل کام قوم کے درمیان رابطہ ہے۔
ہماری علمی زبان انگریزی ہے جبکہ یہ نہ ہماری مادری زبان ہے اور نہ ہی قومی مگر اس کے باوجود سب سے لاڈلی زبان ہے۔ دُنیا میں جو قومیں اپنی مادری زبان میں پڑھاتی ہیں وہ ترقی یافتہ ہیں اور جو دوسری زبان یعنی قومی زبان میں پڑھاتے ہیں وہ کم ترقی یافتہ ہیں۔ وہ قومیں پسماندہ اور خوار قومیں ہیں جو تیسری زبان میں پڑھاتے ہیں اور یہی ہماری پسماندگی کا راز ہے۔
جب ریاست یا حکومت اپنی قوم کی مادری زبان کو احترام دیتی ہے تو اس زبان سے واسطہ، علم و ثقافت ، تہذیب و تمدن، تاریخ و روایات سب محترم ہو جاتے ہیں اور اس قوم میں چھپے علم و حکمت کے خزانے جو اس قوم نے صدیوں کی مسافت میں حاصل کئے ہوں گے وہ اس قوم کے اور اس کی نسلوں کے کام آتے ہیں۔ اس سے قوم کا اعتماد بڑھتا ہے اور جب اس قوم کا طالب علم قومی لیول پر پہنچتا ہے تو ایک پُر اعتماد طالب علم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور تاریخ و روایات سے پیار ایک فطری عمل ہے یہ محب الوطنی کا سرچشمہ اور اور وہ فخر ہوتا ہے جس سے انسان ہمیشہ سر بُلند رہتا ہے اور ہمیں اس کی سر بُلندی کو قائم رکھنے کے لئے مادری زبان کا پرچار کرناہو گا اسی سے ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بقلم: امتل ھدٰی