بقلم: کاشف شہزاد
دُنیا میں خانہ جنگی, تنازعات، غربت اور کئی دیگر اسباب کے باعث ہر سال لاکھوں افراد انسانی سمگلنگ اور ٹریفکنگ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں, جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اور دُنیا کا ہر خطہ اس عذاب سے دوچار ہے۔ درحقیقت تارکینِ وطن کی سمگلنگ پوری دُنیا میں ایک بہت ہی منافع بخش غیر قانونی کاروبار بن گیا ہے جس پر قابو پانا ہمارے جیسے ملکوں میں موزوں قوانین کے فقدان کے باعث ناممکن ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پوری دُنیا میں تارکینِ وطن کی سمگلنگ کا مالی حجم اس وقت 5 سے 7 ارب امریکی ڈالرز کے قریب ہے جوکہ بہت سے چھوٹے ممالک کی جی ڈی پی کے برابر ہے۔
لاکھوں تارکینِ وطن جو اس وقت بحیرہ روم کے اُس پار بیٹھے ہیں سمگلنگ کی دُنیا کے سب سے بڑے اور خطرناک ترین راستے سے ہو کر پہنچے ہیں اور وہ وہاں بالکل بھی سستے نہیں پہنچے۔ سمگلرز ایک شخص کو شمالی افریقہ سے یورپ پہنچانے کے عوض 6 سے 8 ہزار یورو تک وصول کرتے ہیں ، مگر جنوبی ایشیاء سے شمالی افریقہ اور پھر یورپ جانے تک چند سو ڈالرز سے 50 ہزار ڈالرز تک ادائیگی کرنا پڑ سکتی ہے۔ اسمگلنگ کے قوانین کی عدم موجودگی کے باعث سمگلرز اس غیر قانونی کاروبار سے بھاری منافع کماتے ہیں مگر دُنیا میں کہیں بھی ان کے خلاف مالیاتی تحقیقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وطنِ عزیز میں وسطی پنجاب کے کچھ اضلاع انسانی سمگلنگ کے حوالے سے دُنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ان علاقوں میں کچھ دیہات میں عالیشان گھر ہیں جہاں رہنے والے فخریہ طور پر بتاتے ہیں کہ یہ مکان یورپ میں مقیم بیٹوں کی کمائی سے بنا ہے, یوں گاوّں کے دوسرے لوگوں میں بھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے بیٹوں کو یورپ بھیجیں تاکہ راتوں رات ان کے دن بھی بدل جائیں, مگر یہاں سب کی کہانی کا اختتام یکساں نہیں ہوتا۔ وطن عزیز میں رشتہ داروں کی پوری کی پوری کھیپ یعنی 12، 12 افراد گھروں سے یورپ جانے کے لئے نکلتے ہیں۔ یہ لوگ خفیہ طریقے سے نہیں جاتے بلکہ ائیرپورٹس کے ذریعے ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہوتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں کتنے رسک ہیں۔ یورپ جانے کی خواہش میں کتنے ہی جواں سال بیٹے صحراوّں اور پہاڑوں سے گزرتے موت کی گھاتی میں اُتر چکے ہیں۔ کچھ مختلف ملکوں کی بارڈر فورسز کی فائرنگ کا نشانہ بنے تو کچھ سمندروں کی لہروّں کی نظر ہوگئے, اس قدر مشکلات دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو وہاں بھی زندگی آسان نہیں۔ میں تو یہی کہوں کا اگر وطنِ عزیز کی معیشت ٹھیک ہوتی اور تعلیم کا معیار اچھا ہوتا تو لوگ کبھی بھی ملک چھوڑ کر نہ جاتے۔ پاکستان سے بے ضابطہ ہجرت کی بنیادی وجہ ہی بیروزگاری، مواقعوں کی کمی، غربت، عدم تحفظ اور سیاسی تنازعات ہیں۔
اس کے علاوہ انسانی سمگلرروں کے ایجنٹ نوجوان اور کمزور حثییت کے افراد کو نشانہ بنانے اور مغربی ممالک کے سفر کی ترغیب دینے میں ماہر ہوتے ہیں، یہ لوگوں کو راتوں رات امیر ہونے کا جھانسہ دیکر لاکھوں روپے کے عوض منتقل کرنے میں برس ہا برس سے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ غیر قانونی طور پر سفر کرنے والے بہت سے لوگ مختلف ممالک کی سرحدوں پر گرفتار بھی کئے گئے ہیں مگر اس کے باوجود منزل تک پہنچنے اور سیکورٹی اداروں سے بچنے کے لئے انتہائی غیر محفوظ مقامات پر پناہ لیتے ہیں جہاں یہ مختلف حادثوں کا شکار ہو کر اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ یہی صورتحال بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بنی ہے جسے دیکھتے ہوئے اندرونِ ملک وسیع پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داروان کو گرفتار کرنے اور قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دے کر نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایف آئی اے کے 2018 کے ایکٹ میں بھی اصلاحات کرنی بہت ضروری ہیں تاکہ ایف آئی کے اہلکاروں پر اضافی نگرانی کر کے کرپشن کو روکا جا سکے, کیونکہ کرپشن کی ہی بدولت انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کو بے خوفی سے یہ کام کرنے کا موقع دیتے ہیں۔